تنازعہ کشمیر کی سنگین صورت حال اب ایک ایسے خوفناک موڑ میں داخل ہو چکی ہے جہاں جذبۂ آزادی سے سرشار گزشتہ دو د ہائیوں سے قربانیاں دینے والی تیسری نسل کا آخری معرکہ آزادی کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔ نریندر مودی نے اگلے روز مقبوضہ کشمیر کی آزادانہ کہ حیثیت ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کو اقلیت قرار دینے کی جو گھنائونی چال چلی اُس سے عالمی برادری سمیت پاکستان میں گہری تشویش پائی جا رہی ہے۔ بنیادی طور پر مودی سر کار نے کشمیر کی دنیا میں ’’پہچان‘‘ کو ختم کرنے کی یہ بھیانک سازش کی ہے جسے پاکستان کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ 70 برس سے آزادی سے محروم کشمیریوں کی آزادی کی گھڑی بلاشبہ اب دور نہیں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو سازش سے سلب کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد طبلِ جنگ اور جنگی نقاروں کی آوازیں بھی سنائی دی جانے لگی ہیں جبکہ کم سن بچے حریت پسند اور مجاہدین اپنے وطن کی آزادی کیلئے ہر قربانی کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی عالمی حیثیت کے خاتمہ اور آزادی وطن کے لیے اب تک دی لاکھوں کروڑوں قربانیوں کی توہین اُنہیں ہرگز منظور نہیں۔ بھارتی صدر رام ناتھ نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے مظلوم کشمیریوں کی جس طرح توہین کی دنیا میں ایسی درندگی کی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی صدر کے اس اقدام سے یہ واضح ہو گیا کہ مقبوضہ کشمیر کو ’’اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینا ہی بھارت کی وہ غاصبانہ چال تھی جو انتہائی محتاط طریقے سے چلی گئی۔ A/35 کے خاتمہ کے بعد کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اور لداح کو بھارت میں ضم کرنے کی اس سازش سے یہ عیاں ہو گیا کہ مودی سرکار نے یہ گھنائونی سازش نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے چلی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس تنازعہ کا واحد حل یو این او اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور چارٹر کے طے کردہ اصولوں پے مبنی ہے۔ شب خون مارا ہے۔
برطانوی مبصرین کے مطابق نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر کی عالمی حیثیت ختم کرنے سے قبل بھارتی افواج کی طرف سے ایل او سی پر BOMB CLUSTER TO کی وحشیانہ حرکت کرتے ہوئے جو بہیمانہ اقدام کئے اور جنیوا کنونشن کی جس طرح دھجیاں بکھیریں۔ آرٹیکل 370 کا شاخسانہ ہے اب جبکہ بھارت کا اصلی مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ پاکستان سمیت تمام امت مسلمہ کو یکجا ہو کر مظلوم کشمیریوں کی ہر محاذ پر حمایت کرنا ہو گی۔ یو این او کے سیکرٹری جنرل اینٹینو گرٹریذ نے پہلے ہی بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ تنازعہ کشمیر کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کے چارٹر کی قراردادوں کے ذریعے ہی ہو گا اس لیے مقبوضہ کشمیر کی عالمی قانونی حیثیت قابلِ قبول نہیں ہو گی۔ بھارت کے اس غاصبانہ اقدام دنیا بھر میں پھیلے کشمیریوں کو ایک نئے جذبہ اور قوت سے دوچار کر د یا ہے۔ یورپ، امریکہ ، مشرق وسطیٰ اور برطانیہ میں نریندر مودی کے اس جنونی فیصل کے خلاف جلسے جلوسوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں کشمیری تنظیمیں ، جلوس نکال رہی ہیں لندن میں 15 اگست کو بھارتی ہائی کمشن کے سامنے ایک تاریخی مگر پُرامن احتجاجی جلوس کے انتظامات کو بھی آخری شکل دی جا چکی ہے۔ لندن میں پاکستانی ہائی کمشن کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ اِسی طرح انسانی حقوق کی بیشتر تنظیمیں بھی کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے میدان میں اُتر چکی ہیں۔ دوسری جانب ممتاز امریکی اخبار ’’وال سٹریٹ جنرل‘‘ نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام سے افغانستان میں قیام امن کی امریکی کوششیں خطرات سے دوچار ہو سکتی ہیں…آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر کی حیثیت ختم کرنے کے حوالہ سے صورتحال کیا ہو گی؟ وہ سوال ہے جس پر دیگر مسلمان ممالک سمیت پاکستان کو اپنی ’’شہ رگ‘‘ کے تحفظ کی نئی سٹریٹجی تیار کرنا ہو گی۔ اس سلسلہ میں کشمیری تنظیموں کو بھی اپنا فعال کردار ادا کرتے ہوئے عملی اتحاد و یکجہتی کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔ اپنی تنظیموں کو دھڑے بندیوں سے آزاد کرانا ہو گا…اس موقع پر لیڈری چمکانے کے بجائے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی صفیں مضبوط کرنا ہونگی تاکہ بھارت کے غاصبانہ عزائم دنیا کے سامنے واضح ہو سکیں۔
عبدالغنی لون مرحوم ایک مرتبہ لندن تشریف لائے تو دوران انٹرویو ان کی آنکھیں بھیگ گئیں ، صوفے پر گِرے دو آنسو پونچھنے کے بعد انہوں نے اس بات کا شکوہ کیا کہ پاکستان سے یہاں آئے کشمیری لیڈران تو انگلستان میں خود اور فائیو سٹار‘‘ زندگی گزارتے ہیں جبکہ ہم مقبوضہ کشمیر میں صبح و شام گولیاں کھا رہے ہیں۔جب ’’کاز‘‘ ایک تو پھر یہ انداز مختلف کیوں؟؟ افسوس کوشش کے باوجود بھی میں عبدالغنی لون مرحوم کو ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکا؟
کتنی عجیب بات ہے کہ 70 برس گزرنے کے بعد ہمیں آج پھر یکدم خیال پیدا ہوا کہ بھارت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرد ینا چاہئے ، بھارتی چاول، آٹا ، کپڑے ، تیل ، دال ، سبزیاں اور فروٹ کھانا بند، بھارتی ڈراموں، فلموں اور میوزک کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہوئے یہ قوی عہد کرنا چاہئے کہ آزادی کشمیر تک اپنے اس عہد پر قائم رہیں گے؟ بزرگوار سید گیلانی، یٰسین ملک اور سینکڑوں دیگر کشمیری رہنما یہی عہد تو نبھا رہے ہیں آئیے ان کے حق میں دعا کریں۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024