عمران خان کے پہلے سودن
کہنے کو تو 100دن بہت ہوتے ہیں مگر قوموں کی زندگی میں یہ وقت ایک قلیل وقفے کی مانند ہوتا ہے جو ادھر شروع ہوا ادھر ختم ہوگیا۔ اب پاکستان کی نئی حکومت چند روز میں کاروبار مملکت سنبھال لے گی۔ اس کے ساتھ نئی ٹیم کا امتحان بھی شروع ہو جائے گا۔ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کے قائدین نے جو بلند وبانگ دعوے کیے تھے ان کوپوراکرنے کے لئے انہوں نے پہلے سو دن کی بات کی تھی ۔ تمام قائدین کو یقین تھا کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد پہلے سو روز میں کچھ نہ کچھ ہی نہیں بہت کچھ کر کے دکھا سکتے ہیں ۔ اب جیسے جیسے دن قریب آ رہے ہیں ، بہت سوں کے ہاتھ پھول رہے ہیں۔ عمران خان کی پوری تیاری ہے کہ وہ زور دار انٹری ڈال کر سو دونوں میںکچھ کردکھائیں ۔ ان کی کارکردگی کا سارا دارومدار اس حکومتی ٹیم پر ہوگا جو وہ سلیکٹ کریں گے ، 1997میں ورلڈکپ صرف عمران خان نے اپنی کارکردگی سے نہیں جیتا تھااس میں پوری ٹیم کی محنت شامل تھی ۔ ان سے زیادہ بہتر پر فارمنس دکھانے والے کھلاڑیوں نے بھی جان توڑکوشش کرکے یہ معرکہ سرکر دکھایا تھا۔ مگر چونکہ کپتان خان صاحب تھے اس لئے سہرا ان کے سر بندھا اور ٹرافی انہوں نے وصول کی۔ اب عمران خان کے پاس اچھے سے اچھے قابل افراد موجود ہے ۔ بس خان صاحبہ کو ان میں سے عمدہ کارکردگی دکھانے والے صاف و شفاف افراد پر مشتمل حکومتی ٹیم تیار کرنا ہوگی جو اپنے اپنے شعبہ میں ماہر ہو، اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کسی حد تک ان کی کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔کیونکہ ایک ماہر شخص ہی اپنے شعبہ کی بہتری کے لئے کار آمد ثابت ہوتا ہے اگر انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے ، کسی میٹرک پاس کووزیرتعلیم اور کسی سود خور کو وزیرخزانہ کسی انگریزی زبان سے نابلد کو وزیر خارجہ اور کسی خستہ جاں ناتواں بزرگ کو وزیرصحت بنادیاتو پھرسو دن تو کیا سوا سو سال بھی حکومت کرتے رہے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پاکستان جہاں کھڑا ہے وہاں سے ٹس سے مس نہیں ہوگا۔ ہمارے قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جاتے محسوس ہوں گے۔ یہ وقت تجربات کرنے کا نہیں عملی مظاہرہ کرنے کا ہے ۔ میرٹ پر عملدرآمداور کرپشن کے خلاف جنگ کے حوالے سے خان صاحب کے بیانات ابھی تازہ ہیں ، ان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی۔ان دو کے ساتھ اگر انصاف بھی پاکستانیوں کو ملنا شرع ہو جائے تو پھر واقعی سب تسلیم کرلیں گے کہ تبدیلی آگئی ہے۔ معاشرے کو اس وقت میرٹ پر عمل کرپشن کے خلاف جنگ اور انصاف کی فراہمی کی اشد ضرورت ہے۔ ان کےاملنے سے بہت سے خرابیاں خود بخود ختم ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ عوام اشیائے صرف کی قیمتوں پر کنٹرول یعنی مہنگائی کے خاتمے کی آس بھی تحریک انصاف سے لگائے بیٹھے ہے ، سابقہ حکومت بے لگام مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ اب عوام نئی حکومت کو اس کو لگام ڈالتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ خان صاحب کے پاس مخلص لوگوں کی کمی نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار ہو یا نہ ہو دل و جان سے خان صاحب پر جان و مال لٹانے سے دریغ نہیں کرتے خان صاحب ان سے بہت سے کام لے سکتے ہیں ان کی خدمات پارٹی اور عوام کے لئے وقف کرنا ہوں گی تاکہ انہیں براہ راست عوام سے میل ملاپ رہے اور وہ خان صاحب کو آنکھیں اور کان بن کر عوام سے رابطے میں رہیں اور عوامی جذبات اور مسائل سے آگہی پا سکیں۔ ایسے لوگوں میں مثالی شخصیت جہانگیر ترین اور علیم خان کی ہے۔ جن کا پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں بڑا ہاتھ ہے۔ ایسے لوگ حکمرانوں اور عوام میں بھی رشتہ قائم رکھنے ہیں موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔یہ توملکی مسائل انکے ساتھ ساتھ اس وقت بین الاقوامی سطح پر امریکہ سے بگڑتے اوربنتے ہوئے تعلقات بھی کڑا امتحان ہے۔
عالمی سطح پر ہمیں امریکہ سے تعلقات میں بہتری لانا ہوگی کیونکہ امریکہ گزشتہ 70برسوں سے ہمارا سٹرٹیجکی پارٹنر رہا ہے۔ ہماری مالی امداد اور عسکری صلاحیتوں میں اس کا بڑا ہاتھ ہے عالمی چیلنجوں سے مقابلے کرنے کے لئے ہمیں اس کے ساتھ بہتر تعلقات کی راہ ہموار کرنا ہوگی، ورنہ وہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر ہمیں تنگ کرتا رہے گا۔ جبکہ نئی حکومت کے لئے بلوچستان میں امن و امان اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے امریکہ اور افغانستان کے ساتھ مستحکم تعلقات ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔امریکی حکومت نے نئی پاکستانی حکومت کے لئے جن خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے اس سے امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آسکتی ہے۔رہی بات بھارت کی تو وہ بھی نئی حکومت سے اچھے تعلقات کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے اس وقت عمران خان اور نریندر مودی دو ایسے مستحکم اور مضبوط حکمران ہیں جو مسئلہ کشمیر پر کوئی اہم قدم اٹھا سکتے ہیں کیونکہ دونوں کو اپنے اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے پچھلے دور میں نواز شریف حکومت بھاری مینڈیٹ حاصل ہونے کے باوجود ایسا کچھ کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے ، اب کشمیری عوام بھی نئی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ روایتی بیان بازی کرکے وقت گزارے گی یا مسئلہ کشمیرکے حل میں کوئی پیش رفت بھی کرے گی، اس کا اندازہ کشمیر کمیٹی کے نئے چیئرمین کی تقرری سے ہی ہو جائے گا۔ ہمارے تحریک انصاف لاہور سے منتخب آزاد کشمیر اسمبلی کے ایم ایل اے غلام محی الدین دیوان امید ہے اس بارے میں کشمیریوں کے جذبات ضرور خان صاحب تک پہنچائیں گے کہ اس چیئرمینی کے لئے کوئی بااثر کشمیری رہنما ہی تلاش کیا جائے کیونکہ انہیں بحیثیت کشمیری اس کا بخوبی ادراک ہے۔اب ظاہر ہے یہ کام سو دنوں میں تو پورے ہوتے نہیں مگر کوشش کرکے دیکھنے میں کیا ہرج ہے کوئی تو آئے جو اصلاح کا بیڑا اٹھائے اور میدان کا رزارمیں کود پڑے۔ کیا اشرافیہ سے تعلق رکھنے ولے یہ حکمران سب کچھ گنوانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ عوام کے لئے قربانی کاجذبہ ان میں پیدا ہوسکتا ہے یا پھر یہ لوگ اپنے سے پہلے حکمرانوں کی طرح صرف اپنا مال و زر اور جان مال بچانے کے لئے عوام سے ہی قربانیاں لیتے رہیں گے اس کا فیصلہ بھی سو دنوں میں ہوسکتا ہے کیونکہ قرضوں کی قسطیںاتارنے کے لئے اور کاروبار سلطنت چلانے کے لئے 12ارب ڈالر کی ضرورت منہ کھولے سامنے کھڑی ہے۔