جمعرات‘ 4 ذی الحج 1439 ھ ‘ 16 اگست 2018ء
میر جمال رئیسانی کی پرچم کشائی اور ترنگا جوتا۔
بلوچستان کے دلیر اور محب وطن شہید سراج رئیسانی کی ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ یوم آزادی کی تقریبات جوش و خروش سے مناتے تھے۔ اس موقع پر کار ریلی اور پرچم کشائی کی تقریب بڑی زبردست انداز میں ہوتی تھی۔ اس دن یعنی جشن آزادی کے روز وہ خاص طور پر بھارت کے ترنگے سے بنے جوتے بھی پہنتے تھے جو ان کی پہچان بن گئے تھے۔
ظاہر ہے بھارتی ترنگے کو پاﺅں کے نیچے روندنے والے کو وطن دشمن کب تک برداشت کرتے۔ بالآخر موقع ملتے ہی انہوں نے اس فرزند بلوچستان کو ہم سے چھین لیا۔اب ان کے بعد ان کے فرزند نوجوان میر جمال رئیسانی میں بھی اپنے والد کی طرح حب الوطنی اور بھارت دشمنی کی ادا نظر آتی ہے۔ انہوں نے یوم آزادی پر قومی پرچم لہرا کر بھارتی ترنگے کے جوتے پہن کر جشن آزادی منانے والوں میں جہاں جوش و جذبہ پیدا کیا وہیں شہید سراج رئیسانی کی یاد بھی تازہ کر دی۔
بھارت اور اس کے زرخرید ایجنٹ پوری کوشش میں ہیں کہ بلوچستان کا امن و امان برباد کیا جائے مگر جب تک ایک بھی غیرت مند بہادر محب وطن بلوچ زندہ ہے بھارت کی یہ کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
٭........٭........٭
تحریک انصاف کے ایم پی اے کا شہری پرتشدد
ملک میں لاکھ جمہوری تماشے چلیں یا آمرانہ سرکس لگیں، اس کھیل تماشے میں حصہ لینے والے لوگوں کی ذہنیت بدلی ہے نہ بدلے گی۔ کیونکہ اس تماشے یاسرکس میں حصہ لینے والوں کی اکثریت ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کی ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے سوا کسی کوانسان سمجھتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس پراڈو والی مخلوق کو جب اقتدار کا نشہ چڑھ جائے تو پھر ان کے تو قدم زمین پر نہیں ٹکتے۔ کہاوت ہے ”اصل ذات سے خطا نہیں کم ذات سے وفا نہیں“ بقول شاعر ....
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
صراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
کراچی میں تحریک انصاف کے اس بڑی گاڑی میں سوار ایم پی اے کا انداز قاہرانہ میڈیا پر سب دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح صاحب اقتدار نے ایک سرکاری ملازم کو بیچ بازار کے تشدد کا نشانہ بنایا۔جب بات چل نکلی دور دور تک پھیل گئی تو تب یہ عزت ماب جان چھڑانے کے لئے اپناسارا جاہ وجلال گھر چھوڑ کر اس شہری سے معافی مانگنے آئے اور کہا کہ قانونی کارروائی نہ کریں۔
شہری نے جان کی امان چاہتے ہوئے کیس سے تو انکار کر دیا مگر ساتھ ہی بڑی سرکاری عمران خان سے آس لگا لی ہے کہ دیکھتے ہیں اب وہ اسکے ساتھ کیا انصاف کرتے ہیں۔
لال چوک میں بھارتی ترنگا لہرانے کی کوشش پھر ناکام
لال چوک سرینگر میں بھارتی استبداد کے خلاف لڑنے والوں کے لئے ایک زندہ علامت بن گیا ہے۔ یہاں 14 ۔ اگست کو پاکستان کا سبز ہلالی پرچم تو لہرایا جا سکتا ہے مگر 15 ۔ اگست کو یا کسی بھی اور دن بھارت کا ترنگا لہرانے کی جرا¿ت کسی میں نہیں ہوتی۔
گزشتہ روز پاکستان کے جشن آزادی کے موقعہ پر بھارتی شہریوں کے ایک گروپ کے دماغ میں یہ خناس سمایا کہ وہ لال چوک میں ترنگا لہرائیں گے۔ شاید ان کو پہلے یہ کوشش کرنے والوں کا انجام یاد نہیں رہا۔ اب یہ حرکت کرنے سے پہلے ان لوگوں کے حواس ٹھکانے آ گئے جب کشمیریوں نے دھکے مار کر ترنگا چھین کر انہیں گھیرے میں لے لیا۔ پولیس والوں نے آ کر ان بھارتی شہریوں کو لوگوں کے نرغے سے نکالا۔
اس طرح ایک بار پھر بھارتیوں کے دلوں کے ارمان آنسوﺅں میں بہہ گئے اور کوشش کے باوجود وہ لال چوک میں ترنگا نہ لہرا سکے۔ یہ بات بھارتی عوام ہی نہیں بھارتی سرکار بھی جانتی ہے کہ کشمیر میں ترنگا صرف فوجی چھاﺅنیوں میں لہرایا جا سکتا ہے۔ کسی شہر یا گاﺅں میں اس کو لہرانے کی کوئی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ اسے سرعام جلانے کی کشمیر میں مکمل آزادی ہے۔
٭........٭........٭
نامزدگورنر سندھ کو مزار قائد میں داخلے سے روک دیا گیا
اب اس روکنے کے عمل کے پیچھے سیاسی اختلافات ہیں یا نامزد گورنر کی طرف سے بلاول ہاﺅس کی دیواریں گرانے والا بیان خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر یہ کس قدر افسوس کی بات ہے۔ جب صوبے کا نامزد وزیراعلیٰ پورے طمطراق کے ساتھ شاہی پروٹوکول کے ہمراہ مزار قائد صر حاضری دے سکتاہے تو صوبے کے نامزد گورنر کو کس قانون کے تحت مزار قائد کے گیٹ بند کرکے روکا گیا۔ کیا انتظامیہ کو ان کی آمد کا علم نہیں تھا یا وہ بھی سیاسی تعصب کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مزار قائد میں داخلے کا جتنا حق پیپلز پارٹی کے نامزد وزیر اعلیٰ کا ہے اتنا ہی پی ٹی آئی کے نامزد گورنر کا بھی ہے۔ اس طرح کی حرکات کی وجہ سے ہی لوگ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔
عمران اسماعیل کے بیانات اور انکی سیاسی وابستگی سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر یہ طرزعمل بھی کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گیٹ بند ہونے کے بعد انہوں نے ساتھیوں کے ہمراہ بیرون مزار گیٹ پر ہی فاتحہ خوانی کی۔ ویسے عمران اسماعیل صاحب خوب تیار ہو کر جناح کیپ پہن کر آئے تھے۔ مگر ”وائے حسرت ان کی ساری تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اب دیکھنا ہے کہ جب وہ گورنر بن کر آئیں گے تو کیا کوئی انہیں روک سکے گا....
٭........٭........٭