امریکی اعلانات اور اقدامات میں واضح تضاد
امریکی وزیرخارجہ مائیک چومپیو نے پاکستانی قوم کو جشن آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سات عشروں سے پاکستان اور امریکہ کے عوام کے درمیان قریبی تعلقات ہیں اور یہ تعلقات اور رشتے وقت کے ساتھ مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہمارا بہترین اتحادی ہے ہم مشترکہ اہداف کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
کاش کہ امریکہ کا یہ بیان ڈپلومیسی کے بجائے صدق دلی پر مبنی ہو۔ وگرنہ امریکی اعلانات اور اقدامات اسکی تائید نہیں کرتے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ ، سوویت یونین سرد جنگ میں پاکستان نے سیٹو اور سنٹو کے معاہدوں میں شامل ہو کر، امریکیوں کے پست حوصلوں کو سہارا دیا۔ پھر نائین الیون کے بعد افغان جنگ میں امریکہ کو بھرپور سٹرٹیجک تعاون فراہم کیا۔ جس کے باعث امریکہ پر جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اس کے نتیجے میں خود دہشت گردی کے جال میں الجھ گیا۔ امریکہ کی دی ہوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 شہریوں اور فوجیوں کی جانی قربانی دی اور ایک کھرب ڈالر سے زائد کا ہماری معیشت کو نقصان پہنچا۔ مگر امریکہ نے پاکستان کی تمام قربانیوں کو فراموش کر کے افغان امور اور اس حوالے سے پالیسیاں بھارت کے حوالے کر دیں۔ امریکہ کے پاکستان کے بارے میں انہی رویوں کے پیش نظر، امریکی وزیرخارجہ کا یوم آزادی پرمبارکباد کا پیغام اخلاص سے عاری نظر آتا ہے۔ امریکہ نے اس وقت پاکستان کے بارے میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اسے دیکھ ہوئے کون کہے گا کہ ہم اب بھی اس کے ”بہترین اتحادی“ ہیں۔ دہشت گردی اور اقتصادی مشکلات کی صورت میں جن مسائل سے دوچار ہیں وہ امریکہ کے ہی دئیے ہوئے ہیں۔ ہم اب بھی امریکہ سے قریبی تعلقات اور تعاون کے خواہاں ہیں لیکن اس کے جواب میں امریکہ چاروں طرف سے ہمارے گھرد گھیرا تنگ کرتا چلا آ رہا ہے۔ لہذا ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں ہمیں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اپنی سلامتی اور خود مختاری کے تقاضوں کو ہر صورت پیش نظر رکھنا ہو گا۔