کوہ پیما عظمیٰ یوسف گولڈ پیک سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون
اسلام آباد (بی بی سی )پاکستانی خاتون کوہ پیما عظمیٰ یوسف نے ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع 7027 میٹر بلند چوٹی سپانٹک کو جسے گولڈ پیک بھی کہا جاتا ہے، سر کر کے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا ہے۔گزشتہ چار برس میں خراب موسمی حالات کی بنا پر اس چوٹی کو کوئی سر نہیں کر سکا تھا لیکن اس برس دو اگست کو عظمیٰ نے یہ کامیابی حاصل کی۔بی بی سی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے عظمیٰ یوسف نے کہا کہ پاکستان کی ہر عورت مضبوط ہے اور دنیا کا مشکل سے مشکل کام کر سکتی ہے۔پاکستان میں کوہ پیمائی سے متعلق تنظیم 'الپائن کلب' کے ترجمان کرار حیدری نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک خاتون کے لیے 7000 میٹر کی بلندی سر کرنا بڑی کامیابی ہے۔'عظمیٰ یوسف پاکستانی خواتین کے لیے ایک مثال ہیں جنہوں نے پروفیشنل بیک گراو¿نڈ نہ ہونے کے باوجود، ایک گھریلو خاتون ہوتے ہوئے یہ کارنامہ سر انجام دیا۔'عظمی اس سے قبل دو اور چوٹیاں بھی سر کر چکی ہیں۔کرار حیدری کا کہنا ہے کہ 'الپائن کلب آف پاکستان' اسی حوالے سے عظمیٰ یوسف کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کر رہا ہے۔عظمیٰ یوسف نے بحیثیت ایک خاتون اپنی ا±ن مشکلات کے بارے میں بھی بتایا جن کا کوہ پیمائی کے دوران انہیں سامنا کرنا پڑا۔'عظمیٰ یوسف نے بتایا کہ پہا اپنے 31 دن کے سفر کے دوران مردوں کی ٹیم کے ساتھ ان مشکلات حالات کا دلیری سے مقابلہ کیا۔عظمی نے کہا کہ خواتین ہو کر کوہ پیمائی کرنا آسان کام نہیں۔اس سے قبل عظمیٰ یوسف پاکستان کے شمال میں واقع قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں شامل منگلنگ سر اور 'رش پیک' جیسی چوٹیاں انتہائی سرد موسم، منفی 28 درجہ سینٹی گریڈ میں سر کر چکی ہیں۔±۔'عظمیٰ نے مزید بتایا 'کوہ پیما مرد یا عورت نہیں ہوتا بس 'کلائمبر' ہوتا ہے۔ اس کے لیے جسمانی ہی نہیں دماغی طور پر مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔