آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ہمارے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نکالا میں نے اس فیصلے کے خلاف ریلی نہیں نکالی اور پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم بنادیا۔ وہ بھی ہمارا وزیراعظم تھا جس طرح خاقان عباسی ن لیگ یعنی نوازشریف کا وزیراعظم ہے۔اپنی جگہ پر خاقان عباسی نوازشریف کی ہدایت پر وزیراعظم بنائے گئے ہیں۔
وزیراعظم تیسری مرتبہ اپنی مدت پورا نہ کرتے ہوئے نکالے گئے ہیں۔ تو کیا ہر بار انہیں ناجائز طور پر نکالا گیا؟ میں نے ایوان صدر میں اپنی مدت بڑے آرام سے پوری کی۔ وہاں بڑے بڑے اجلاس بھی منعقد کرائے۔ ایک دفعہ بہت محترم مجید نظامی نے بھی شرکت کی۔ یہ غالباً حلف برداری کی تقریب تھی انہوں نے مجھے ’’مرد حر‘‘ کا خطاب دیا جو میرا اعزاز ہے۔
نوازشریف کہتے ہیں کہ میں نے سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔ 20 کروڑ عوام نے بھی نہیں کیا۔ اُن کی پارٹی نے انتخاب میں ایک کروڑ ووٹ بھی حاصل نہیں کئے تھے میرے خیال میں نوازشریف خاموشی سے گھر چلے جاتے تو یہ اُن کی سیاسی زندگی کا بڑا فیصلہ ہوتا۔
زرداری صاحب نے کہا کہ میں ریلی نکالتا تو مجھے نقصان ہوتا۔ وہی نقصان نوازشریف کو ہوگا اب کلثوم نواز کو سامنے لایا جارہا ہے۔ پہلے عارضی وزیراعظم خاقان عباسی اور مستقل وزیراعظم کے طور پر شہباز شریف کا نام سامنے لایا گیا ہے ۔ اگر کلثوم نواز وزیراعظم بن گئیں تو یہ ایک مذاق ہوگا ۔ کلثوم نواز میری کالج فیلو ہیں اُن کے لئے دل میں عزت ہے مگر کیا کوئی اور اہل آدمی ن لیگ میں نہیں ہے۔یہ الفاظ زرداری صاحب کے ہیں۔ یہ بات کہنے کا حق ہے کہ سیاستدانوں نے موروثیت کو جمہوریت بنا لیا ہے۔
اہم سیاستدانوں کے حوالے سے غور کریں نوازشریف کے بعد مریم نوازشریف اُن کے شوہر رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ مانسہرہ سے کونسلر منتخب نہیں ہوسکتے۔ شہباز شریف کے بعد حمزہ شہباز۔ وہ ابھی سے سیاست میں رکن قومی اسمبلی بھی ہیں۔ ان میں کچھ تو سیاست کی سمجھ بوجھ شاید ہو۔ مجھے سیاسی ورثے پر اعتراض نہیں۔ اگر اس میں اتنی اہلیت ہو؟ مگر اب تک سیاسی تاریخ اس کی تصدیق نہیں کرتی۔ خان عبدالغفار خان‘ولی خاں اور اسفند یار ولی‘ مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن ‘ قاضی حسین احمد اور سمیحہ راحیل قاضی ۔کالم میں گنجائش نہیں ورنہ تقریباً تمام اراکین اسمبلی شامل ہیں۔
کلثوم نواز وزیراعظم بن گئیں تو یقینا نوازشریف وزیراعظم ہائوس میں منتقل ہوجائیں گے۔ زرداری صاحب بھی تو منتقل ہوئے تھے۔ اُن کے لئے مذاق مذاق میں مردِ اول کے خطاب کا چرچا ہوا تھا۔ اس بات کی ابتدا بہت دل والے سیاستدان حافظ حسین احمد نے کی تھی۔ اس کے بعد صدر زرداری ایوان صدر میں پورے پانچ سال رہے۔اب مرد اول نوازشریف ہوں گے۔ وہ خفا نہ ہوجائیں اس لئے معذرت ۔ مگر زرداری صاحب نے اس لفظ کو اپنی روایتی ہنسی میں اڑا دیا تھا ۔ میں نوازشریف کے لئے مرد اول و آخر کا خطاب پیش کرتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ اب کلثوم نواز کے وزیراعظم بننے کے بعد نوازشریف کو تحمل اور تعاون کی پالیسی رکھنا چاہیے۔ وزیراعظم خاقان عباسی کو وزیراعظم کے لئے میں نے پچھلے کالم میں مبارکباد پیش کردی تھی مگر میںاب کہتا ہوں کہ اگر وزیراعظم چودھری نثار ہوتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
میری ایک ہی ملاقات چودھری نثار سے ہوئی ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ بڑی مستحکم شخصیت کے آدمی ہیں۔ نئے وزیراعظم کے لئے حتمی منظوری نوازشریف نے دی ہے۔
وزیراعظم آزادکشمیر نے پاکستان کے لئے مخالفانہ اور متنازعہ بات کی جسے بھارت میں بہت اچھالا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے پیپلزپارٹی کے لوگوں نے اس کا نوٹس لیا۔ پھر وزیراعظم آزادکشمیر وضاحتیں پیش کرتے رہے اور ایک میڈیا گروپ کو غلط رپورٹنگ کے لئے نشانہ بنایا مگر یہ بات سوچنے کی ہے کہ اس شخص کو کشمیر کا وزیراعظم بھی نوازشریف نے بنوایا تھا۔
تحریک انصاف کے جلسے میں آخری تقریر عمران خان کی تھی۔انہوں نے سیرت رسولؐ کے حوالے بھی دئیے۔ لیڈر کا کام ایجوکیٹ کرنا بھی ہوتا ہے۔ برادرم شیخ رشید کی تقریر بھی جذباتی اور پسندیدہ تھی۔ وہ جوش میں آئے اور لوگوں کو جوش دلانے کے ماہر ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس جلسۂ عام میں ڈاکٹر بابر اعوان کو تقریر کرنا چاہیے تھی۔ وہ دانشور اور دلیر سیاستدان ہیں۔
ایک بات مجھے آصف زرداری کی بہت اچھی لگی۔ وہ ہشاش بشاش تھے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے لئے بہت محبت سے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے جیل بہت اچھی کاٹی۔ اچھی جیل کاٹنے والے کے لئے وزیراعظم ہائوس بھی جیل کی طرح ہوتا ہے۔
جو کچھ نوازشریف کررہے ہیں لوگ کبھی حیران ہوتے ہیں کبھی پریشان ہوتے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا کہ یہ سب کچھ وہ اپنی بقا کے لئے کررہے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024