پاکستان کے دل لاہور کے حلقہ 120میں انتخابی معرکے کا آغاز ہوچکا۔ یہ انتخابی حلقہ تاجروں، دکانداروں اور ورکنگ کلاس کے باسیوں کا حلقہ ہے جس میں آرائیں اور کشمیری برادریاں رہتی ہیں اور شیعہ کمیونٹی قابل ذکر تعداد میں موجود ہے۔ لٹریسی ریٹ 80فیصد ہے۔ 1970ءکے انتخابات میں پی پی پی نے لاہور کی ساری نشستیں جیت لی تھیں جو بھٹو صاحب کی کرشماتی شخصیت اور نظریاتی سیاست کا معجزہ تھا۔ پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے کم و بیش اسی انتخابی حلقے سے 78132ووٹ لیکر علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال کو شکست دی تھی جو مسلم لیگ کونسل کے اُمیدوار تھے اور انہوں نے 32921ووٹ حاصل کیے تھے۔ اقتدار کی مصلحتوں کے پیش نظر پی پی پی نظریاتی سیاست سے دور ہوتی چلی گئی جس سے اس کا ووٹ بنک سکڑتا چلا گیا۔ 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف اس انتخابی حلقے سے پہلی بار منتخب ہوئے اور اس طرح سیاست اور تجارت کے امتزاج کا آغاز ہوا۔ 1988ءمیں میاں نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ اور آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑا اور 48318ووٹ حاصل کرکے پی پی پی کے اُمیدوار عارف اقبال بھٹی مرحوم کو ہرا دیا۔ 1990ءکے انتخابات میں میاں نواز شریف نے اسی حلقے میں ائیر مارشل اصغر خان کو شکست دی۔ 2002ءکے انتخابات میں شریف خاندان جلاوطن تھا۔ پی پی پی کے اُمیدوار جہانگیر بدر ، جماعت اسلامی کے اُمیدوار حافظ سلمان بٹ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
2008ءکے انتخابات میں میاں نواز شریف کے کاغذات سزاﺅں کی وجہ سے مسترد ہوگئے۔ مسلم لیگ(ن) کے اُمیدوار بلال یٰسین نے اس حلقے سے 65946ووٹ لیکر پی پی پی کے اُمیدوار جہانگیر بدر کو شکست دےدی جنہوں نے 24380ووٹ حاصل کیے۔ 2013ءکے انتخابات میں تحریک انصاف کا جنون سیاست میں نئے فیکٹر کے طور پر نمودار ہوا۔ میاں نواز شریف نے 91666ووٹ لیے اور تحریک انصاف کی اُمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52354 ووٹ حاصل کرکے مسلم لیگ(ن) کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ مسلم لیگ(ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس انتخابی حلقے پر خصوصی توجہ دی۔ ہزاروں افراد کو روزگار اور خصوصی سرکاری مراعات سے نوازا گیا۔ کامران خان نے اپنے ٹاک شو میں بتایا کہ اس حلقے میں سب سے زیادہ بجلی چوری کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد باصلاحیت انتھک سیاسی لیڈر ہیں انہوں نے ڈور ٹو ڈور مہم شروع کررکھی ہے۔ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ڈاکٹر یاسمین راشد کی کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ تحریک انصاف کے لیڈر عدلیہ کے تاریخ ساز فیصلہ کے بعد سنہری موقع سے سیاسی فائدہ نہ اُٹھاسکے۔ تحریک انصاف کے کارکن اگر ہر شہر میں شکرانے کے نوافل ادا کرکے سکتے میں آئے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو مزید دباﺅ میں لے آتے تو میاں نواز شریف کیلئے جی ٹی روڈ پر ریلی شاید آسان نہ ہوتی۔ میاں صاحب نے بہتر سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے قانونی طور پر ہاری ہوئی بازی سیاسی اور عوامی میدان میں جیت کر تحریک انصاف کو مات دے دی۔ میاں صاحب نے اگرچہ ریاستی اداروں خاص طور پر عدلیہ پر افسوسناک تنقید کرکے سیاسی کلچر کو مزید آلودہ کردیا ہے مگر وہ کامیاب اور پرجوش ریلی کے بعد سیاسی دباﺅ سے باہر نکل آئے ہیں اور اب مسلم لیگ(ن) ان کے ساتھ کھڑی ہے جس کی تقسیم کی پیشین گوئی کی جارہی تھی۔
جی ٹی روڈ مارچ نے لاہور کے انتخابی حلقہ 120پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے متوالے پرجوش اور پرعزم ہوگئے ہیں۔ اس حلقہ میں تین بار خاتون اول رہنے والی بیگم کلثوم نواز کو مسلم لیگ(ن) کا اُمیدوار قرار دے کر اگرچہ خاندانی جمہوریت کو مزید مستحکم بنایا گیا ہے۔ البتہ اس فیصلے سے مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت ایاز صادق اور عبدالعلیم خان کے درمیان کڑے انتخابی معرکے کے بعد محتاط ہوچکی ہے۔ حلقہ نمبر 120کا ضمنی انتخاب مسلم لیگ (ن) کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر وہ یہ انتخاب ہار گئی تو شریف خاندان اور مسلم لیگ(ن) دونوں کا سیاسی مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی اُمیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور کی مقبول اور انتھک شخصیت ہیں۔ تحریک انصاف کی جنونی کارکن عندلیب عباس کورنگ اُمیدوار ہیں۔
کیا عمران خان لاہور میں ایک ہفتہ کیمپ لگا کر انتخابی مہم میں جان ڈال سکیں گے؟ اگر تحریک انصاف اپنے 2013ءکے ووٹوں میں بیس ہزار ووٹوں کا اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو 2018ءکے انتخابات میں اسے سیاسی فائدہ ہوگا۔ پاکستان کی انتخابی سیاست میں آجکل مقابلہ ووٹوں کا نہیں بلکہ نوٹوں کا ہوتا ہے۔ بیگم کلثوم نواز جنرل پرویز مشرف کے دور میں ”آئرن لیڈی“ کے طور پر سامنے آئیں۔ انہوں نے ”سیاست کی دلدل“ سے اپنے آپ کو بچا کررکھا ہے۔
پاکستان کے سیاسی حلقے جماعتی اختلاف کے باوجود ان کا احترام کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران شریف خاندان نیب عدالتوں سے ضمانتیں کرارہا ہوگا۔ تحریک انصاف اس صورت حال سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے مگر اس کا میڈیا منظم، مربوط اور یکسو نہیں ہے جبکہ عمران خان کیمروں کا سامنا کرنے کی بجائے ٹویٹ پر زیادہ سرگرم رہتے ہیں جس کا امپیکٹ بہت کم ہوتا ہے۔ پی پی پی نے سرگرم نوجوان فیصل میر کو انتخابی میدان میں اُتارا ہے۔ وہ اگر حلقہ کے غریب اور محنت کش عوام سے رابطے کریں تو قابل ذکر تعداد میں ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ افسوس تمام سیاسی جماعتوں نے غریب ترین افراد کو نظر انداز کررکھا ہے۔ آج کی سیاست میں غریب کی کوئی آواز نہیںہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت ان کی ترجمان ہونے کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ ٹیک سوسائٹی نے حسب روایت یوم آزادی پر پرچم کشائی کی پروقار تقریب کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر ٹیک سوسائیٹی کے صدر منظور شیخ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر صادق اور ٹیک کلب کے صدر جمیل گشکوری نے اظہار خیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان میں قیادت کا بحران ہے۔
سیاستدان انتخابی لیڈر ہیں جن کی نظر ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب پر ہوتی ہے اور وہ صرف ووٹوں کی سیاست بلکہ تجارت کرتے ہیں جبکہ پاکستان کو قائداعظم جیسے سٹیٹمین لیڈر کی ضرورت ہے جس کی نظر آنے والی نسلوں پر ہو جو اُصولوں پر چٹان کی طرح ڈٹا رہے جو اخلاقیات کا مجسمہ ہو اور قومی نصب العین کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ خورشید محمود قصوری نے اعداد و شمار کے ساتھ پاکستان کے ستر سالوں کا مدلل جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کیلئے لازم ہے کہ پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ انہوں نے کہا بھارت پاکستان پر حملے کی جرا¿ت نہیں کرسکتا۔ دونوں ملکوں کو ڈائیلاگ کے ذریعے تنازعات کا حل تلاش کرنا ہوگا۔اگر نریندر مودی نے تعصب نہ چھوڑا تو بھارت دنیا کے مقابلے میں پیچھے رہ جائیگا۔ پاکستانی عوام کی مثبت سوچ بہترین قومی اثاثہ ہے۔ ریاستی ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ فرقہ واریت ختم کی جائے اور قوم متحد ہو۔ پاک فوج ایک حقیقت ہے جس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ سیاست دان اپنی پرفارمنس بہتر بنا کر ہی اپنی اتھارٹی قائم کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے نشیب و فراز ستر سالہ تجربات اور خوبیوں اور خامیوں کے تناظر میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔