سیاسی کارکنان اورسوشل میڈیا کے دانشور
سانحہ ماڈل ٹائون کی بات کی جائے یاپھر کراچی کی سڑکوںکی !آج تک ان مقامات پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان ہی مرتے چلے آئے ہیں۔اپنے اپنے لیڈران یا ان کے عہدیداران کو خوش کرنے کا فلسفہ اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کارکن ان کی میٹنگوں اور جلسوں کی کرسیاں لگاکر،اسٹیج کی تیاریوں میں حصہ لے کر اوران کے حق میںنعرے لگاکر اپنی حیثیت کو بڑھا رہے ہوتے ہیں ،ایسے کارکنوں کا بنیادی مقصد نوکریاں لینا یا پھر یونین کونسل کی سطح پر اپنی اجارہ داری کو قائم کرنا ہوتا ہے، دیکھا جائے تو کارکنوں کی بھی حکومتی وزراء کی طرح مختلف کیٹیگریز بنی ہوتی ہیں سب سے کم کیٹگری کے کارکن کو جلسے جلوسوں کی کرسیاں لگانے اور نعرے بازی کے لیے تھوڑا بہت خرچہ یا ایک وقت کا کھانا بھی مل جاتاہے جس کے حصول کے لیے وہ سارا دن دھوپ چھائوں میں ہلکان ہی رہتا ہے جبکہ کچھ اسی قسم کے کھاتے پیتے کارکن جن کو یونین کونسل یا حلقے کی سطح پر کوئی عہدہ نہیں ملتا وہ کچھ دے دلا کر وزیراعلیٰ کا مشیر بن جاتاہے جس کا اصل مقصد اپنے علاقے میں وائٹ کالر کو مزید تقویت دینا ہوتی ہے ،میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہو ں کہ جو وزیراعلیٰ کے مشیر کا عہدہ دلانے کے لیے پیسوں کا تقاضا کرتے ہیں ۔دیکھا جائے تو کہنے کو تو وہ وزیراعلیٰ کے مشیر ہوتے ہیں جو کہ ہر دوسری یا تیسری گلی میں ہی مل جاتے ہیں مگر ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر نہیں ہوتی کہ ان کو لیڈران جانتے تک نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے وزیراعلیٰ صاحب ملنا پسند کرتے ہیں ماسوائے چند ایک کے ۔ میرے اس آرٹیکل کا مقصد کسی بھی جماعت کے کارکن کی دل آزاری کرنا نہیں ہے بلکہ اس تحریر کا بنیادی مقصد عوام میں بنیادی طور پر شعور پیدا کرنا ہے ۔جہاں کارکنوں کی جانب سے کرسیاں لگانے کی بات ہے تو دوسری طرف اس ملک میں خاندانی وراثت کا بھی راج پاٹ ہے ۔تو گویا ایک مراعات یافتہ ایم این اے جب ان سیاسی لیڈروں کے وراثتی برخوداروں کے انگلیوں پر ناچتے ہیں تو پھر کارکنان تو ان کی راہوں میں لازمی پلکیں بچھائینگے ۔ان سیاسی لیڈروں کے برخوداروں کی بھی وہ ہی حیثیت ہے جو کہ ان کے بڑوں کی ہوتی ہے ان کے کارکنان ان کی گاڑیوں اور قدموں کو دیوانہ وار ایسے ہی چومتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہی تو ہیں جو ان کے سیاسی آقائوں کے گدی نشین ہیں اورجو آنے والے دنوں میں اس ملک پر حکمرانی کرینگے ۔اس قوم میں یہ سوچ اس قدرگھر ـچکی ہے کہ جسے نکالنے کے لیے ایک طویل مشقت کی ضرورت ہے اور شاید یہ وہ کوشش ہوگی جو زندگی میں پہلی بار ناکام ہوگی کیونکہ جب تک کوئی آدمی خود کو بدلنا ہی نہ چاہے اس پر کوئی بھی نصیحت اثر نہیں کرسکتی ۔ان معزز کارکنان کا ایک مخصوص گروپ جو کہ تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے آج کل سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنے اپنے لیڈران کے حق میں اچھائی اور مخالف جماعت کے سربراہوں کی متنازع یا مزاحیہ تصویروں کے خاکے بناکر خود بھی مشتعل دکھائی دے رہے ہیں اور اپنے ساتھی کارکنان کے کمنٹس دلواکر ان کو بھی شعلہ بیانیوں پر اکسا رہے ہیں۔کوئی کسی کی ریلی کو کم بتا کر اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے تو ووسری جانب اپنے جلسے جلوسوں کی بہترین تصاویر کوشیئر کرکے خود ہی دل کی تسکین پارہے ہوتے ہیں،ان کارکنوں کی جانب سے مختلف ناموں سے واٹس ایپ گروپ بھی چل رہے ہوتے ہیں جن میں یہ اپنی ڈرائنگ رو م کی سیاست چلا رہے ہیں اور نہایت جذباتی انداز میں ایک دوسرے کو اپنا موقف پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ ایسے کارکنان کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ جلسے جلوسوں میں جاکر حکومتی عہدیداروں کے ساتھ تصاویر بنواکر سوشل میڈیا پر بھیجنا اور اپنے ساتھیوں اور حلقہ احباب میں یہ تاثر دینا کہ میرا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے اور یہ کہ میں اب معمولی آدمی نہیں رہا ہوں ۔سوشل میڈیاپر ایسے کارکنان قدم قدم پر دستیاب ہیں جن کا مسئلہ سیاسی کم اور نفسیاتی زیادہ دکھائی دیتا ہے،آج کل اس بھیانک مرض میں سیاسی کارکنوں کے ساتھ بہت سے صحافی حضرات بھی گرفتار ہیں جن کی اوٹ پٹانگ گفتگو سے لگتا تو نہیں ہے کہ یہ کسی اخبار کا معزز صحافی بھی ہوسکتاہے خیر ان نفسیاتی کارکنوں کے جذبات کا بھرپور فائدہ سیاسی لیڈران اٹھاتے ہیں جیسا کہ حالیہ دنوں میں نواز شریف صاحب نے اسلام آبادسے لاہور کا سفر کیا تو اس میں موجود لوگوں کے سروں کے گننے کا مسئلہ اہم رہا ہے۔ایک اعلیٰ درجے کا کارکن جو کہ ایک عرصے تک شریف خاندان کا منظور نظر رہاہے اس روزپنڈی میں نواز شریف کے استقبال کے لیے کم تعداد میں کارکن لانے کی پاداش میں ان سے زبردست ڈانٹ ڈپٹ کھاچکے ہیں ۔دوسری جانب کارکنان کے بل بوتے پر نوازشریف کی ریلی سے جلے بھنے عمران خان صاحب بھی شریف خاندان کو چیلنج کرچکے ہیں کہ وہ بہت جلد نوازشریف کی ریلی سے دس گنا زیادہ کارکن سڑکوں پر لاکر دکھائیں گے ۔اب بھائی اس چیلنج کا جواب کارکن ہی دیں تو زیادہ اچھا ہوگا۔