عید آزادی پر ہمیں پہلا پیغام اسلام آباد سے موصول ہوا! یہ ہمارے دوست جناب طارق طور نے بھیجا تھا، نوائے وقت کے قارئین اُن سے بخوبی واقف ہیں اور اُن کے کالم بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے رہے ہیں! انہوں نے ہم سے پوچھا تھا، ’انگریز اور ہندو سے آزادی تو قائداعظم نے دلوا دی! لیکن آج کے غاصبوں، لٹیروں اور چوروں سے آزادی کون دلوائے گا؟‘
عید آزادی پر دوسرا پیغام لاہور سے موصول ہوا، ’یہ وہ مٹی ہے جس کیلئے میں پیدا ہوا تھا، یہ میری ارض وطن ہے جس کیلئے میں جان دے دوں گا، کیونکہ یہ میری مادر وطن ہے اور میری پہچان واضح کرتی ہے، پاکستان میرا وجود ہے اور زاہد شمسی ایک مفتخر پاکستانی ہے! پاکستان زندہ باد!‘
عید آزادی کا تیسرا پیغام میلسی سے موصول ہوا،’ وطن کی پاک مٹی کہہ رہی ہے! میری توقیر ہے عزت تمہاری!‘ یہ جناب خرم جمیل کے جذبات تھے۔ پشاور سے اذلان شاہ یاد کرا رہے تھے، ’ابھی تک پاﺅں سے لپٹی ہیں زنجیریں غلامی کی! دن آ جاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی!‘ لاہور سے جناب ناصر بشیر کہہ رہے تھے: مرے بدن پہ لگائے ہیں زخم کس کس نے؟ بنا ہوا ہے سراپا سوال پاکستان!
قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پروان چڑھتی ہیں! یہ بات ممتاز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے کہی تھی مگر بھیجی جناب احمد حماد نے تھی اور اس کے ساتھ ہی علامہ اقبالؒ کا ایک شعر بھی یاد کرایا تھا:
نہیں ہے نااُمید اقبالؒ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ارنسٹ ہیمنگو نے ایک اور بات کہہ رکھی ہے اور وہ یہ کہ ایک لکھاری پر لازم ہے کہ وہ صرف وہ لکھے جو ابھی تک نہیں لکھا گیا! اگر نہیں تو اُن گزشتگان کی باتوں پر دھیان دے کہ وہ کیا کچھ کر چکے ہیں!
کیا ہماری نماز؟ کیا روزہ؟
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
جناب عاطف جاوید عاطف نے حضرت میر مہدی مجروح کا یہ شعر رمضان کے حوالے سے بھیجا اور ہم نے آپ سب کو اس لذت میں شریک کر لیا!
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا، ’تم پر علم طلب کرنا رزق طلب کرنے سے زیادہ فرض ہے، کیونکہ رزق تقسیم ہو چکا ہے اور وہ تم تک ضرور پہنچے گا!‘ ہم نے علم کی تحصیل کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا مگر تاحال جناب محمد رفیق غوری نے ہمیں پڑھے لکھوں میں شمار کرنا پسند نہ فرمایا اور ہمارے پیغام کے جواب میں یہ پیغام بھیج دیا،’امیر المومنین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جاہلوں کی جہالت برداشت کرنا علم کی زکوٰة ہے!، سو آج کا کالم اسی زکوٰة پر ہے! جنابِ محشر بدایونی فرماتے ہیں:
اتنے سمٹے ہیں کہ شبنم ٹھہرے
پھیل جاتے تو سمندر ہوتے
ہم اپنے شکووں اور شکایتوں میں سمٹ کے، کیا سے کیا ہوتے چلے جا رہے ہیں! ہم بھول چکے ہیں کہ ہمیں سمندر ہونا تھا اور دُنیا ہمیں کبھی پایاب سمجھنے کی غلطی نہ کر سکتی!
عید آزادی پر دوسرا پیغام لاہور سے موصول ہوا، ’یہ وہ مٹی ہے جس کیلئے میں پیدا ہوا تھا، یہ میری ارض وطن ہے جس کیلئے میں جان دے دوں گا، کیونکہ یہ میری مادر وطن ہے اور میری پہچان واضح کرتی ہے، پاکستان میرا وجود ہے اور زاہد شمسی ایک مفتخر پاکستانی ہے! پاکستان زندہ باد!‘
عید آزادی کا تیسرا پیغام میلسی سے موصول ہوا،’ وطن کی پاک مٹی کہہ رہی ہے! میری توقیر ہے عزت تمہاری!‘ یہ جناب خرم جمیل کے جذبات تھے۔ پشاور سے اذلان شاہ یاد کرا رہے تھے، ’ابھی تک پاﺅں سے لپٹی ہیں زنجیریں غلامی کی! دن آ جاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی!‘ لاہور سے جناب ناصر بشیر کہہ رہے تھے: مرے بدن پہ لگائے ہیں زخم کس کس نے؟ بنا ہوا ہے سراپا سوال پاکستان!
قومیں شاعروں کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پروان چڑھتی ہیں! یہ بات ممتاز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے کہی تھی مگر بھیجی جناب احمد حماد نے تھی اور اس کے ساتھ ہی علامہ اقبالؒ کا ایک شعر بھی یاد کرایا تھا:
نہیں ہے نااُمید اقبالؒ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ارنسٹ ہیمنگو نے ایک اور بات کہہ رکھی ہے اور وہ یہ کہ ایک لکھاری پر لازم ہے کہ وہ صرف وہ لکھے جو ابھی تک نہیں لکھا گیا! اگر نہیں تو اُن گزشتگان کی باتوں پر دھیان دے کہ وہ کیا کچھ کر چکے ہیں!
کیا ہماری نماز؟ کیا روزہ؟
بخش دینے کے سو بہانے ہیں
جناب عاطف جاوید عاطف نے حضرت میر مہدی مجروح کا یہ شعر رمضان کے حوالے سے بھیجا اور ہم نے آپ سب کو اس لذت میں شریک کر لیا!
حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا تھا، ’تم پر علم طلب کرنا رزق طلب کرنے سے زیادہ فرض ہے، کیونکہ رزق تقسیم ہو چکا ہے اور وہ تم تک ضرور پہنچے گا!‘ ہم نے علم کی تحصیل کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا مگر تاحال جناب محمد رفیق غوری نے ہمیں پڑھے لکھوں میں شمار کرنا پسند نہ فرمایا اور ہمارے پیغام کے جواب میں یہ پیغام بھیج دیا،’امیر المومنین یہ بھی فرماتے ہیں کہ جاہلوں کی جہالت برداشت کرنا علم کی زکوٰة ہے!، سو آج کا کالم اسی زکوٰة پر ہے! جنابِ محشر بدایونی فرماتے ہیں:
اتنے سمٹے ہیں کہ شبنم ٹھہرے
پھیل جاتے تو سمندر ہوتے
ہم اپنے شکووں اور شکایتوں میں سمٹ کے، کیا سے کیا ہوتے چلے جا رہے ہیں! ہم بھول چکے ہیں کہ ہمیں سمندر ہونا تھا اور دُنیا ہمیں کبھی پایاب سمجھنے کی غلطی نہ کر سکتی!