نعیم احمد
آزادی کی جدوجہد ہمیشہ طویل ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کو قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسا زیرک اور جری رہنما میسر نہ ہو تو یہ جدوجہد طویل تر ہو جاتی ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت معلوم کرنی ہو تو کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے دریافت کریں جو ہنود و یہود کے جبر و استبداد کی آگ کا مقابلہ کرنے کےلئے اس پر اپنے جوان بیٹوں، بیٹیوں کا خون نچھاور کر رہے ہیں۔ پاکستان قائم کرنے کی خاطر ہمارے آباﺅ اجداد کو بھی آگ اور خون کے دریا عبور کرنے پڑے تھے۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی ان لازوال قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے‘ اپنی تاریخ سے رشتہ کمزور نہیں پڑنے دینا چاہئے کیونکہ اس رشتے کی مضبوطی ہی میں ہماری بقاءکا راز مضمر ہے۔ زندہ قومیں اپنا تاریخی ورثہ اپنی نئی نسلوں کو منتقل کرنے میں کبھی کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ اس مقصد کےلئے وہ اپنی قومی تاریخ کے اہم ایام کو بڑے تزک و احتشام سے منایا کرتی ہیں تاکہ اُن کی نسل نو میں وہ عقابی روح بیدار ہو سکے جو ان کے بزرگوں کا طرہ¿ امتیاز تھی اور جس کی بدولت وہ آتش و آہن کے سیلاب کے سامنے بے خوف ڈٹ گئے تھے۔
14 اگست ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا ہی درخشاں دن ہے جو ایک آزاد‘ خودمختاراور خوددار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے ہمارے عزم کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ ہمیشہ کی مانند اس سال بھی نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں 14 اگست کو یومِ آزادی کی ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمانانِ خاص کارکنانِ تحریک پاکستان تھے۔ موسم برسات کے سیاہ اور سرمئی بادل سورج سے مسلسل آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے آنے والی ہوا کے خوشگوار جھونکے دھوپ کی تمازت سے بچاﺅ کا ذریعہ ثابت ہو رہے تھے۔ پنجاب پولیس بینڈ کا چاق و چوبند دستہ خون کو گرما دینے والے ملی نغموں کی دھنیں فضا میں بکھیر رہا تھا جنہیں سن کر تحریک پاکستان کے کارکنوں ڈاکٹر ایم اے صوفی‘ کرنل (ر) اکرام اللہ خان اور سردار شجاع الدین جھوم اُٹھے اور عالم وارفتگی میں دھمال ڈالنے لگے۔ ایک خوبصورت شامیانے تلے کارکنانِ تحریک پاکستان آرام دہ نشستوں پر تشریف فرما تھے جنہوں نے آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کی آمد پر آگے بڑھ کر خوش دلی سے ان کا خیرمقدم کیا۔ جناب مجید نظامی نے بھی ان سے مصافحہ کیا اور فرداً فرداً ان کا حال احوال دریافت کیا۔ بعدازاں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید کی استدعا پر جناب مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق احمد کی قیادت میں معزز مہمانان مادرِ ملتؒ پارک میں واقع یادگار شہدائے تحریک پاکستان پر حاضری دینے تشریف لے گئے اور پاکستانی قوم کے ان محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے وہاں پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور ان کے درجات کی بلندی کےلئے دعا کی۔ بعدازاں سرخ گلاب کی پتیوں کی برسات میں پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہوئی۔ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان کے ماتھے پر جھومر کی مانند لہراتے سبز ہلالی پرچم کو دیکھ کر یہ عزم مزید راسخ ہو گیا کہ چاہے قیامِ پاکستان کے دنوں کی مانند ازسر نو لاکھوں جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے‘ اس پرچم کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے اور اسے کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیںگے۔ پرچم کشائی کے بعد تمام مہمان وائیں ہال میں جمع ہو گئے اور کائنات کے خالق و مالک کے پاک کلام سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ محبوب رب کریم حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں گل ہائے عقیدت پیش کرنے کا شرف ملک کے ممتاز نعت خواں الحاج اختر حسین قریشی نے حاصل کیا جبکہ تصورِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پیش کرنے کا اعزاز عاشقِ رسولﷺ سرور حسین نقشبندی کو نصیب ہوا۔ تقریب کے آغاز میں 30 اکتوبر 1947ءکو یونیورسٹی گراﺅنڈ لاہور میں قائداعظمؒ کے ولولہ انگیز خطاب کی ریکارڈنگ سنوائی گئی جس کا اختتام بابائے قوم کے مشہورِ عالم فرمان ”مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا“ پر ہوا۔ بعدازاں ہال میں موجود معزز کارکنانِ تحریک پاکستان سے اظہار عقیدت کےلئے اُنہیں گلابوں کے ہار پہنائے گئے۔ جناب مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ اِس تقریب کے دوران سٹیج پر تحریک پاکستان کے بزرگ ترین کارکن کرنل (ر) امجد حسین سید‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ صاحبزادہ پیر خلیل احمد شرقپوری‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی شعبہ¿ خواتین کی کنوینئر بیگم مہنارز رفیع‘ سینیٹر نعیم حسین چٹھہ‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ‘ احمد اویس ایڈووکیٹ‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری رفاقت ریاض‘ مسلم لیگی رہنما بیگم صفیہ اسحاق اور ڈاکٹر پروین خان جلوہ افروز تھے۔ اس تقریب سعید کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے حسب معمول بڑے ذوق و شوق سے نبھائے۔ جناب مجید نظامی نے اپنے صدارتی خطاب کے آغاز میں کہا کہ آج کل نوائے وقت میں ”پاکستان کوئی سَوکھا بنیاسی“ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شائع ہو رہا ہے اور آج یہاں موجود کارکنانِ تحریک پاکستان کے تاثرات سن کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی پاکستان اتنی آسانی سے معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کے قیام کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے جان و مال کی بیش بہا قربانیاں پیش کی تھیں۔ اُنہوں نے خود کو حصولِ پاکستان کی جدوجہد کےلئے وقف کر دیا تھا اور ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی ”بن کے رہے گا پاکستان .... لے کے رہیں گے پاکستان“۔ جناب مجید نظامی نے حاضرین کو 65ویں یومِ آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے رب ذوالجلال کے حضور دعا فرمائی کہ وہ ہمیں پاکستان کو قائم و دائم رکھنے اور اس کے تحفظ کی ہمت عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کوتاہیوں کے سب پہلے ہی ایک پاکستان کے دو پاکستان بنا دیئے ہیں اور اب باقی ماندہ پاکستان کے بھی حصے بخرے کرنے پر تل گئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ کے حامل عناصر کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ جناب مجید نظامی نے مغموم لہجے میں کہا کہ اگرچہ آج خوشی کا دن ہے لیکن میں بےحد اُداس بھی ہوں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ساﺅتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کی ایک تقریب میں کچھ ایسی باتیں کہہ ڈالی ہیں جن کی میں اُن سے ہرگز توقع نہیں رکھتا تھا۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارت کے ہندوﺅں اور پاکستان کے مسلمانوں کا خدا ایک ہے‘ وہ اسے پوجتے ہیں اور ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارے موجودہ رہنماﺅں کی سوچ کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کی ثقافت کو ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف سرحد کی لکیر کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ یہ لکیر مٹا دینا چاہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے اور اُن کو پاکستان میں جو مقام حاصل ہے یا جو حاصل ہوا تھا‘ اُس پر وہ پورا اُتریں۔ جناب مجید نظامی نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ یہ فرما فرما کر تھک گئے کہ ہم پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کےلئے نہیں بنا رہے بلکہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے مگر میاں نواز شریف یہ فرما رہے ہیں کہ ہمارا اور اُن کا خدا ایک ہے۔ جناب مجید نظامی نے کہا کہ ہندوﺅں کے خدا کے تو کئی کئی سر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے خدا کو تو کسی نے نہیں دیکھا۔ میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ امرتسر میں واقع گاﺅں جاتی عمرہ تشریف لے جائیں اور پھر دیکھیں کہ یہاں کے جاتی عمرہ اور وہاں کے جاتی عمرہ میں کیا فرق ہے۔ جناب مجید نظامی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور حضور پاکﷺ کے صدقے اور فضل و کرم کے طفیل ہی ہمیں یہ آزادی حاصل ہوئی ہے۔ آج میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی باتیں سننے کےلئے زندہ رکھا ہے۔ میرا دل رو رہا ہے کیونکہ نواز شریف نے ایسی باتیں کیں جو اُنہیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے اپنے ووٹ بنک کا بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ جناب مجید نظامی نے اپنے خطاب کا اختتام پاکستان پائندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے کیا۔ تقریب سے کرنل (ر) امجد حسین سید‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا جبکہ کارکنانِ تحریک پاکستان میں سے کرنل (ر) اکرام اللہ خان‘ محمد یوسف غازی اور میاں غلام جعفر سالار نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر صاحبزادہ پیر خلیل احمد شرقپوری نے ملکی ترقی و استحکام اور جناب مجید نظامی کی صحت و درازی عمر کےلئے دعا کروائی۔
آزادی کی جدوجہد ہمیشہ طویل ہوتی ہے اور اگر کسی قوم کو قائداعظم محمد علی جناحؒ جیسا زیرک اور جری رہنما میسر نہ ہو تو یہ جدوجہد طویل تر ہو جاتی ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت معلوم کرنی ہو تو کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں سے دریافت کریں جو ہنود و یہود کے جبر و استبداد کی آگ کا مقابلہ کرنے کےلئے اس پر اپنے جوان بیٹوں، بیٹیوں کا خون نچھاور کر رہے ہیں۔ پاکستان قائم کرنے کی خاطر ہمارے آباﺅ اجداد کو بھی آگ اور خون کے دریا عبور کرنے پڑے تھے۔ ہمیں اپنے بزرگوں کی ان لازوال قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے‘ اپنی تاریخ سے رشتہ کمزور نہیں پڑنے دینا چاہئے کیونکہ اس رشتے کی مضبوطی ہی میں ہماری بقاءکا راز مضمر ہے۔ زندہ قومیں اپنا تاریخی ورثہ اپنی نئی نسلوں کو منتقل کرنے میں کبھی کوتاہی کی مرتکب نہیں ہوتیں۔ اس مقصد کےلئے وہ اپنی قومی تاریخ کے اہم ایام کو بڑے تزک و احتشام سے منایا کرتی ہیں تاکہ اُن کی نسل نو میں وہ عقابی روح بیدار ہو سکے جو ان کے بزرگوں کا طرہ¿ امتیاز تھی اور جس کی بدولت وہ آتش و آہن کے سیلاب کے سامنے بے خوف ڈٹ گئے تھے۔
14 اگست ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا ہی درخشاں دن ہے جو ایک آزاد‘ خودمختاراور خوددار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے ہمارے عزم کو مہمیز عطا کرتا ہے۔ ہمیشہ کی مانند اس سال بھی نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان لاہور میں 14 اگست کو یومِ آزادی کی ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمانانِ خاص کارکنانِ تحریک پاکستان تھے۔ موسم برسات کے سیاہ اور سرمئی بادل سورج سے مسلسل آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے آنے والی ہوا کے خوشگوار جھونکے دھوپ کی تمازت سے بچاﺅ کا ذریعہ ثابت ہو رہے تھے۔ پنجاب پولیس بینڈ کا چاق و چوبند دستہ خون کو گرما دینے والے ملی نغموں کی دھنیں فضا میں بکھیر رہا تھا جنہیں سن کر تحریک پاکستان کے کارکنوں ڈاکٹر ایم اے صوفی‘ کرنل (ر) اکرام اللہ خان اور سردار شجاع الدین جھوم اُٹھے اور عالم وارفتگی میں دھمال ڈالنے لگے۔ ایک خوبصورت شامیانے تلے کارکنانِ تحریک پاکستان آرام دہ نشستوں پر تشریف فرما تھے جنہوں نے آبروئے صحافت جناب مجید نظامی کی آمد پر آگے بڑھ کر خوش دلی سے ان کا خیرمقدم کیا۔ جناب مجید نظامی نے بھی ان سے مصافحہ کیا اور فرداً فرداً ان کا حال احوال دریافت کیا۔ بعدازاں نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید کی استدعا پر جناب مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق احمد کی قیادت میں معزز مہمانان مادرِ ملتؒ پارک میں واقع یادگار شہدائے تحریک پاکستان پر حاضری دینے تشریف لے گئے اور پاکستانی قوم کے ان محسنوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلئے وہاں پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور ان کے درجات کی بلندی کےلئے دعا کی۔ بعدازاں سرخ گلاب کی پتیوں کی برسات میں پرچم کشائی کی تقریب منعقد ہوئی۔ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان کے ماتھے پر جھومر کی مانند لہراتے سبز ہلالی پرچم کو دیکھ کر یہ عزم مزید راسخ ہو گیا کہ چاہے قیامِ پاکستان کے دنوں کی مانند ازسر نو لاکھوں جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ پیش کرنا پڑے‘ اس پرچم کا ہر قیمت پر تحفظ کریں گے اور اسے کبھی سرنگوں نہیں ہونے دیںگے۔ پرچم کشائی کے بعد تمام مہمان وائیں ہال میں جمع ہو گئے اور کائنات کے خالق و مالک کے پاک کلام سے تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ محبوب رب کریم حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں گل ہائے عقیدت پیش کرنے کا شرف ملک کے ممتاز نعت خواں الحاج اختر حسین قریشی نے حاصل کیا جبکہ تصورِ پاکستان کے خالق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا کلام پیش کرنے کا اعزاز عاشقِ رسولﷺ سرور حسین نقشبندی کو نصیب ہوا۔ تقریب کے آغاز میں 30 اکتوبر 1947ءکو یونیورسٹی گراﺅنڈ لاہور میں قائداعظمؒ کے ولولہ انگیز خطاب کی ریکارڈنگ سنوائی گئی جس کا اختتام بابائے قوم کے مشہورِ عالم فرمان ”مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا“ پر ہوا۔ بعدازاں ہال میں موجود معزز کارکنانِ تحریک پاکستان سے اظہار عقیدت کےلئے اُنہیں گلابوں کے ہار پہنائے گئے۔ جناب مجید نظامی کی صدارت میں منعقدہ اِس تقریب کے دوران سٹیج پر تحریک پاکستان کے بزرگ ترین کارکن کرنل (ر) امجد حسین سید‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ صاحبزادہ پیر خلیل احمد شرقپوری‘ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کی شعبہ¿ خواتین کی کنوینئر بیگم مہنارز رفیع‘ سینیٹر نعیم حسین چٹھہ‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ‘ احمد اویس ایڈووکیٹ‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری رفاقت ریاض‘ مسلم لیگی رہنما بیگم صفیہ اسحاق اور ڈاکٹر پروین خان جلوہ افروز تھے۔ اس تقریب سعید کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے حسب معمول بڑے ذوق و شوق سے نبھائے۔ جناب مجید نظامی نے اپنے صدارتی خطاب کے آغاز میں کہا کہ آج کل نوائے وقت میں ”پاکستان کوئی سَوکھا بنیاسی“ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ شائع ہو رہا ہے اور آج یہاں موجود کارکنانِ تحریک پاکستان کے تاثرات سن کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعی پاکستان اتنی آسانی سے معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ اس کے قیام کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے جان و مال کی بیش بہا قربانیاں پیش کی تھیں۔ اُنہوں نے خود کو حصولِ پاکستان کی جدوجہد کےلئے وقف کر دیا تھا اور ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی ”بن کے رہے گا پاکستان .... لے کے رہیں گے پاکستان“۔ جناب مجید نظامی نے حاضرین کو 65ویں یومِ آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے رب ذوالجلال کے حضور دعا فرمائی کہ وہ ہمیں پاکستان کو قائم و دائم رکھنے اور اس کے تحفظ کی ہمت عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کوتاہیوں کے سب پہلے ہی ایک پاکستان کے دو پاکستان بنا دیئے ہیں اور اب باقی ماندہ پاکستان کے بھی حصے بخرے کرنے پر تل گئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی سوچ کے حامل عناصر کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ جناب مجید نظامی نے مغموم لہجے میں کہا کہ اگرچہ آج خوشی کا دن ہے لیکن میں بےحد اُداس بھی ہوں کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ساﺅتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کی ایک تقریب میں کچھ ایسی باتیں کہہ ڈالی ہیں جن کی میں اُن سے ہرگز توقع نہیں رکھتا تھا۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بھارت کے ہندوﺅں اور پاکستان کے مسلمانوں کا خدا ایک ہے‘ وہ اسے پوجتے ہیں اور ہم اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ ہمارے موجودہ رہنماﺅں کی سوچ کیا ہے۔ میاں نواز شریف نے پاکستان اور بھارت کی ثقافت کو ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف سرحد کی لکیر کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ یہ لکیر مٹا دینا چاہتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت عطا فرمائے اور اُن کو پاکستان میں جو مقام حاصل ہے یا جو حاصل ہوا تھا‘ اُس پر وہ پورا اُتریں۔ جناب مجید نظامی نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ یہ فرما فرما کر تھک گئے کہ ہم پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کےلئے نہیں بنا رہے بلکہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے مگر میاں نواز شریف یہ فرما رہے ہیں کہ ہمارا اور اُن کا خدا ایک ہے۔ جناب مجید نظامی نے کہا کہ ہندوﺅں کے خدا کے تو کئی کئی سر ہوتے ہیں جبکہ ہمارے خدا کو تو کسی نے نہیں دیکھا۔ میاں نواز شریف کو چاہئے کہ وہ امرتسر میں واقع گاﺅں جاتی عمرہ تشریف لے جائیں اور پھر دیکھیں کہ یہاں کے جاتی عمرہ اور وہاں کے جاتی عمرہ میں کیا فرق ہے۔ جناب مجید نظامی نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اور حضور پاکﷺ کے صدقے اور فضل و کرم کے طفیل ہی ہمیں یہ آزادی حاصل ہوئی ہے۔ آج میں سوچ رہا ہوں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی باتیں سننے کےلئے زندہ رکھا ہے۔ میرا دل رو رہا ہے کیونکہ نواز شریف نے ایسی باتیں کیں جو اُنہیں نہیں کرنی چاہئیں تھیں۔ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے اپنے ووٹ بنک کا بیڑہ غرق کر لیا ہے۔ جناب مجید نظامی نے اپنے خطاب کا اختتام پاکستان پائندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے کیا۔ تقریب سے کرنل (ر) امجد حسین سید‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ نے بھی خطاب کیا جبکہ کارکنانِ تحریک پاکستان میں سے کرنل (ر) اکرام اللہ خان‘ محمد یوسف غازی اور میاں غلام جعفر سالار نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر صاحبزادہ پیر خلیل احمد شرقپوری نے ملکی ترقی و استحکام اور جناب مجید نظامی کی صحت و درازی عمر کےلئے دعا کروائی۔