بھارتی یوم آزادی پر کشمیریوں کا یوم سیاہ....مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال‘ مظاہرے‘ کرفیو کا سماں‘ گھروں پر سبز ہلالی پرچم لہراتے رہے
سرینگر + مظفر آباد + اسلام آباد (آن لائن + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) کنٹرول لائن کے دونوں اطراف سمیت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی اپیل پر بھارتی یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ ہزاروں افراد نے سڑکوں پر آ کر پاکستان اور آزادی کے حق میں نعرے لگائے‘ وادی میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور مظاہرے کئے گئے اور عالمی برادری کی توجہ مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کو درپیش مشکلات کی جانب مبذول کرائی گئی۔ جلسے جلوس‘ احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں ہوئیں‘ ان مظاہرین نے ہاتھوں میں سیاہ پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ریاست بھر میں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے وادی کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ کرفیو کا سماں پیدا کر دیا گیا۔ سرینگر سمیت مختلف علاقوں میں قابض فوج نے گھروں پر دھاوا بول کر متعدد شہریوں کو گرفتار کر لیا۔ اسلام آباد میں حریت کانفرنس کے دونوں گروپوں کے زیراہتمام اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا گیا۔ حریت رہنماﺅں و دیگر مقررین نے کہا کہ بھارت ایک طرف جمہوری و سیکولر ملک ہونے کا دعویدار ہے اور یوم آزادی منا رہا ہے تو دوسری طرف اس نے طاقت کے زور پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو سلب کر رکھا ہے جس سے بھارت کے اس دعوے کی قلعی کھل کر سامنے آئی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو کشمیری عوام کی مشکلات کا نوٹس لینا چاہئے اور بھارت پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو بند کرنے و کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق دینے کیلئے دباﺅ ڈالنا چاہئے جس کا عالمی برادری نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔ سرینگر اور مظفر آباد میں اقوام متحدہ کے مبصر دفاتر میں یادداشتیں پیش کی گئیں اور کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرائے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی اپیل پر وادی بھر میں مکمل ہڑتال رہی جس سے کاروباری و تجارتی مراکز و تعلیمی ادارے بند رہے۔ سڑکیں سنسان رہیں جس سے کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا‘ مختلف مقامات پر نوجوانوں نے بھارت مخالف مظاہرے کئے اور آزادی اور پاکستان کے حق میں جبکہ بھارتی حکومت کے خلاف نعرے لگائے‘ اس دوران حریت کانفرنس کے احتجاجی پروگرام اور ممکنہ حملوں کے خدشات کے پیش نظر ریاست میں سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے سرینگر اور وادی کے دیگر قصبوں کو سکیورٹی قلعہ بنا دیا گیا تھا بخشی سٹیڈیم جہاں پرچم کشائی کی تقریب ہونا تھی کی طرف جانےوالی تمام سڑکوں و راستوں کو اتوار کی شام سے ہی عام ٹریفک کیلئے بند کردیا گیا تھا‘ سٹیڈیم کے نزدیک قائم ہوٹلوں، ہاﺅس بوٹوں اور رہائشی مکانات میں تلاشی کے بعد ہنگامی طور پر پولیس اور فورسز اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تھی جبکہ کئی اونچی عمارتوں پر شارپ شوٹرز کو مورچہ زن کیا گیا تھا۔ سٹیڈیم کو سخت سکیورٹی حصار میں رکھا گیا جبکہ سکیورٹی حکام گزشتہ کئی دنوں سے بخشی سٹیڈیم کے اندر اور گردونواح میں بار بار خصوصی آلات کی مدد سے چیکنگ کرتے رہے۔ اس سال ریاستی حکومت نے بخشی سٹیڈیم میں ہونےوالی تقریب کے دوران سکول کے بچوں اور بچیوں کی طرف سے ان رنگارنگ پروگراموں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پائین شہر میں گزشتہ دنوں سے چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پولیس نے پندرہ افراد کو گرفتار کر لیا مقامی لوگوں کے مطابق پولیس نے بھائی کے بدلے بھائی اور بیٹے کے بدلے باپ کو بھی گرفتار کیا۔ مظفر آباد سمیت تمام ضلعی و صدر مقامات پر بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی مناسبت سے جلسے جلوسوں و مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا اور کشمیری بھائیوں سے مکمل اظہار یکجہتی کیا گیا اور عالمی برادری کی توجہ بھارتی مظالم کی جانب مبذول کرائی گئی اسلام آباد، لاہور، کراچی ، پشاور سمیت پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بھی کشمیری عوام نے مظاہرے کئے‘ دھرنے دئیے گئے۔ بیرون ملک مقیم کشمیریوں نے بھارتی سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کئے۔ اسلام آباد میں ڈپلومیٹک ایونیو میں حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے دونوں گروپوں کے زیراہتمام یوم سیاہ کے موقع پر اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا اور ایک گھنٹہ دھرنا دیا۔ مظاہرے اور دھرنے میں حریت کانفرنس کے رہنماﺅں یوسف نسیم، میر طاہر مسعود، منظور بٹ، اشتیاق حمید، عبدالمجید ملک، طفیل الطاف بٹ، راجہ خادم حسین کے علاوہ مسلم کانفرنس کے رہنما سردار ممتاز انقلابی نے شرکت کی۔ شرکا نے بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور وہ ”اے ظالمو، اے غاصبو، کشمیر ہمارا چھوڑ دو، نام نہاد بھارتی جمہوریت بے نقاب ہوگئی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے“ کے پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرے کے اختتام پر اقوام متحدہ کے دفتر میں تعطیل ہونے کی وجہ سے حریت رہنما اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام یادداشت پیش نہ کرسکے۔ چنانچہ یہ یادداشت اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز نیویارک ارسال کردی گئی۔ مقررین نے خطاب اور یادداشت میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، پرامن لوگوں پر ریاستی تشدد، زیرحراستی ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں بھارت کا یوم جمہوریہ منانا شرمناک اور قابل مذمت ہے۔دریں اثناءبھارتیوں نے یوم آزادی انتہائی خوف و ہراس کی فضا میں منایا۔ وزارت داخلہ نے سکیورٹی الرٹ جاری کیا۔ نئی دہلی کو نو فلائی زون قرار دیا گیا۔ بنگلور‘ چنائی‘ کولکتہ‘ ممبئی و دیگر شہروں میں اضافی نفری لگائی گئی تھی۔ کنٹرول لائن پر فوج اور فضائیہ کو ہائی الرٹ کیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت بھی معطل رہی جس سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا‘ دوسری جانب حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق‘ سید علی شاہ گیلانی‘ شبیر شاہ اور دیگر متعدد رہنما¶ں کو گھروں میں نظربند کر دیا گیا۔ کئی مقامات پر احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں جن میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ وادی گو انڈیا گو‘ لے کے رہیں گے آزادی کے نعروں سے گونج اٹھی‘ آزادی کے حق میں نعرے لگانے والوں کے خلاف پولیس نے کریک ڈا¶ن کیا اور متعدد افراد گرفتار کر لئے‘ اہلکاروں نے گھروں میں گھس کر خواتین سے بدتمیزی کی۔
یوم سیاہ
یوم سیاہ