سپریم کورٹ این آئی سی ایل کیس،ظفرقریشی،سیکرٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹرلاہور کو کل عدالت میں پیش ہونے کا حکم
این آئی سی ایل کیس کی تفتیش ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے ظفرقریشی کوسونپنے کے حوالے سے تعطل کی خبریں سامنے آنے کے بعد عدالت عظمی نے سیکرٹری داخلہ صدیق اکبر، ڈی جی ایف آئی اے تحسین انورشاہ، اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق اورظفرقریشی کوطلب کیاتھا۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ ظفرقریشی نے عدالت کوبتایا کہ 8 اگست کوان کی بحالی کا حکم آنے کے بعد انہوں نے دوبارڈی جی ایف آئی اے کوخط لکھا مگر جواب موصول نہ ہونے پرگیارہ اگست کوخود ہی اپنے دفترچلے گئے ،اپنی ٹیم کی میٹنگ کےلیے بھی ڈی جی ایف آئی اے کودرخواست دی مگربعد میں پتہ چلا کہ ان کی پوری ٹیم چھٹیوں پرہے۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کے رویے پرسخت اظہارناراضگی کرتے ہوئےتمام ٹیم کی چھٹیاں منسوخ اور ظفرقریشی کووہ خطوط ان چیمبرپیش کرنے کی ہدایت کی۔ این آئی سی ایل کیس کی تفتیش سے متعلق فائلیں بھی ظفرقریشی کے حوالے نہ کرنے اوران کے بارے میں لاعلمی کا اظہارکرنے پرجسٹس غلام احمد ربانی نے ڈی جی ایف آئی اے کی سرزنش کی اورریمارکس دیے کہ آپ کس قسم کے ڈی جی ہیں جنہیں اپنے ادارے کے معاملات کی خبرہی نہیں۔ عدالت عظمی نے ظفرقریشی کودفترداخل ہونے سے روکنے کے لیے بم کی افواہ پھیلنے کانوٹس لیتے ہوئے کل اسسٹنٹ ڈائریکٹرحماد علی شاہ کووضاحت پیش کرنے کے لیے طلب کرلیا ہے۔ ظفرقریشی نے کمرہ عدالت میں انکشاف کیا کہ تیرہ اگست کی بم افواہ کی اطلاع انہیں بارہ اگست کی رات حماد علی شاہ نے دیتے ہوئے دفترمیں آنے سے منع کیاتھا۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی ایف آئی اے کوبم کی اطلاع پرلاہورکے متعلقہ تھانے میں فوجداری مقدمہ درج کروانا چاہیے تھا۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں بھی ڈی جی ایف آئی اے کوہدایت کی کہ وہ ڈی پی اولاہورسے مل کران عناصرکا سراغ لگائیں جنہوں نے یہ افواہ پھیلائی اوراس بارےمیں عدالت عظمی کوبھی آگاہ کریں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں سیکرٹری داخلہ، ڈی جی ایف آئی اے، ڈائریکٹرایف آئی اے لاہور، اسسٹنٹ ڈائریکٹرایف آئی اے لاہورکوعدالتی حکم کی خلاف ورزی کا ذمہ دارٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی کا عندیہ بھی دیا ۔ چیف جسٹس نے این آئی سی ایل کیس میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی حکومتی روش تبدیل نہ ہونے پراٹارنی جنرل مولوی انوارالحق سے بھی استفسارکیا کہ وہ ہی مشورہ دیں کہ عدلیہ اب کیا کرے۔
عدالت عظمی نے ایک بارپھرواضح کیا ہے کہ این آئی سی ایل کیس کی تفتیش میں کسی قسم کی رکاوٹ کوبرداشت نہیں کیا جائے گا اور رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہوگئی۔
عدالت عظمی نے ایک بارپھرواضح کیا ہے کہ این آئی سی ایل کیس کی تفتیش میں کسی قسم کی رکاوٹ کوبرداشت نہیں کیا جائے گا اور رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی ہوگئی۔