مجید نظامی
(قسط نمبر 9)
قائداعظمؒ نے قےامِ پاکستان کے بعد ڈھاکہ مےں 20مارچ‘ 1948ءکو اےک جلسہ¿ عام سے خطاب کےا اور اےک آزاد مملکت مےں وہ نوجوانوں سے جس طرز عمل کی توقع رکھتے تھے‘ اس پر تفصےلاً اظہار ِ خےال فرماتے ہوئے کہا کہ :-
”مےرے نوجوان دوستو! مےں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سےاسی جماعت کا آلہ¿ کار بن گئے تو ےہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ ےاد رکھےے کہ اب اےک انقلابی تبدےلی رونما ہوچکی ہے۔ اب ہماری اپنی حکومت ہے۔ اب ہم اےک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہےں۔ اب ہمےں آزاد لوگوں کی طرح عمل اور اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہےے۔ اب ہم کسی بےرونی طاقت کے تسلط مےں نہےں ہےں۔ ہم نے وہ زنجےرےں توڑ دی ہےں۔ ہم نے غلامی کی بےڑےاں کاٹ ڈالی ہےں۔مےرے نوجوان دوستو! اب مےں آپ ہی کو پاکستان کا حقےقی معمار سمجھتا ہوں اور دےکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی باری پر کےا کچھ کرکے دکھاتے ہےں۔ اس طرح رہےے کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ کوئی آپ کو غلط طور پر استعمال نہ کرسکے۔ اپنی صفوں مےں مکمل اتحاد اور استحکام پےدا کےجئے۔ اےک مثال قائم کردےجئے کہ نوجوان کےا کچھ کرسکتے ہےں۔ آپ کا اصل کام کےا ہونا چاہےے.... اپنی ذات سے وفا‘ اپنے والدےن سے وفا‘ اپنی مملکت سے وفا‘ اپنے مطالعہ پر کامل توجہ۔“
اردوزبان کی ترویج
بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کے مختلف حصوں کو متحد رکھنے میں اردو زبان کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ان تمام حصوں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو انہیں اردو کو بطور سرکاری زبان اپنانا ہو گا۔ قائداعظمؒ سمجھتے تھے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ ان کے نزدیک اردو زبان ہی اس مملکت خداداد کے مختلف صوبوں کے مابین افہام و تفہیم کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 24 مارچ 1948ءکو ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقدہ جلسہ¿ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ :-”اردو وہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے‘ اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے اور دوسرے اسلامی ملکوں کی زبانوں سے قریب ترین ہے۔ یہ بات بھی اردو کے حق میں جاتی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بھارت نے اردو کو دیس نکالا دے دیا ہے حتیٰ کہ اردو رسم الخط کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔“
بابائے قوم کے ان ارشادات کو سامنے رکھ کر آج ہم اپنا جائزہ لیں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہم نے آپ کے دیگر ارشادات کی مانند انہیں بھی پس پشت ڈال رکھا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے حکومتی سطح پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ٹیلی ویژن چینلز کی یلغار نے ہماری نسل نو کے زبان و بیان میں ہندی الفاظ کی آمیزش کو خطرناک حد تک فروغ دے دیا ہے ۔ اس پر مستزاد رومن اردو میں اشتہارات کی بھرمار ہے۔ اگر ہم پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اردو زبان کے فروغ بالخصوص نسل نو میں اس کی ترویج کے لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کوششیں کرنا ہوں گی۔
تعمیر پاکستان کے لیے قائداعظمؒ کے ملک گیر دورے
قائداعظمؒ نے پاکستان کے قیام اور اسے ایک اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری مملکت کا روپ دینے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا لیا تھا جس کی تکمیل کی خاطر انہوں نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی۔ کام کی زیادتی اور بے آرامی کے باعث بابائے قوم کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے مگر اس نوزائیدہ مملکت کو استحکام بخشنے کے لیے قائداعظمؒ نے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ چونکہ دشمنوں نے اس مملکتِ خداداد کا روزِ اوّل سے ہی گلا گھونٹنے کی مذموم کوششوں کا آغاز کر دیا تھا‘ اس لئے قائداعظمؒ نے ضروری جانا کہ ملک کے طو ل و عرض کے دورے کر کے عوام الناس اور سرکاری اہلکاروں سے براہِ راست مخاطب ہوں۔ صحت کے مسائل کے باوجود قائداعظمؒ ان دوروں پر گئے اور لوگوں کو مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے اور سرکاری ملازمین کو پاکستان کے سچے خدمتگار بننے کی تلقین کی۔
عوام کو اپنے عظیم قائد سے والہانہ لگاﺅ تھا اور وہ اپنے محبوب رہنما کے جلسوں میں جوق درجوق شریک ہوتے تھے۔ آپ نے جہاں قیامِ پاکستان میں عوام کے تاریخی اور لازوال کردار کو سراہا‘ وہاں تعمیرِ پاکستان کی جدوجہد کے لیے رہنما اصول بھی بیان فرمائے۔ اس سلسلے میں قائداعظمؒ نے لاہور کے پنجاب یونیورسٹی سٹیڈیم میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا جس میں انہوں نے دورانِ ہجرت مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال فرمایا۔ آپ نے کہا :-
”ہم نے اپنی منزلِ مقصود ”آزادی“ پالی ہے اور اےک آزاد‘ خود مختار اور دنےا کی پانچوےں بڑی مملکت پاکستان قائم ہوچکی ہے۔ اس برصغےر مےں رونما ہونے والے حالےہ اندوہناک واقعات سے ےہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلاءاور اےثار کے بغےر آزادی حاصل نہےں کرسکتی۔ ہم بے مثال دشوارےوں اور ناگفتہ بہ مصائب مےں گھرے ہوئے ہےں۔ ہم خوف اور اذےت کے تارےک اےام مےں سے ہوکر گزرے ہےں لےکن مےں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حوصلے‘ خود اعتمادی اور اللہ کی تائےد سے کامےابی ہمارے قدم چومے گی۔ (جاری ہے)
(قسط نمبر 9)
قائداعظمؒ نے قےامِ پاکستان کے بعد ڈھاکہ مےں 20مارچ‘ 1948ءکو اےک جلسہ¿ عام سے خطاب کےا اور اےک آزاد مملکت مےں وہ نوجوانوں سے جس طرز عمل کی توقع رکھتے تھے‘ اس پر تفصےلاً اظہار ِ خےال فرماتے ہوئے کہا کہ :-
”مےرے نوجوان دوستو! مےں آپ کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کسی سےاسی جماعت کا آلہ¿ کار بن گئے تو ےہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ ےاد رکھےے کہ اب اےک انقلابی تبدےلی رونما ہوچکی ہے۔ اب ہماری اپنی حکومت ہے۔ اب ہم اےک آزاد اور خود مختار مملکت کے مالک ہےں۔ اب ہمےں آزاد لوگوں کی طرح عمل اور اپنے معاملات کا انتظام کرنا چاہےے۔ اب ہم کسی بےرونی طاقت کے تسلط مےں نہےں ہےں۔ ہم نے وہ زنجےرےں توڑ دی ہےں۔ ہم نے غلامی کی بےڑےاں کاٹ ڈالی ہےں۔مےرے نوجوان دوستو! اب مےں آپ ہی کو پاکستان کا حقےقی معمار سمجھتا ہوں اور دےکھ رہا ہوں کہ آپ اپنی باری پر کےا کچھ کرکے دکھاتے ہےں۔ اس طرح رہےے کہ کوئی آپ کو گمراہ نہ کرسکے۔ کوئی آپ کو غلط طور پر استعمال نہ کرسکے۔ اپنی صفوں مےں مکمل اتحاد اور استحکام پےدا کےجئے۔ اےک مثال قائم کردےجئے کہ نوجوان کےا کچھ کرسکتے ہےں۔ آپ کا اصل کام کےا ہونا چاہےے.... اپنی ذات سے وفا‘ اپنے والدےن سے وفا‘ اپنی مملکت سے وفا‘ اپنے مطالعہ پر کامل توجہ۔“
اردوزبان کی ترویج
بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اس امر پر یقین رکھتے تھے کہ پاکستان کے مختلف حصوں کو متحد رکھنے میں اردو زبان کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ان تمام حصوں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو انہیں اردو کو بطور سرکاری زبان اپنانا ہو گا۔ قائداعظمؒ سمجھتے تھے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ ان کے نزدیک اردو زبان ہی اس مملکت خداداد کے مختلف صوبوں کے مابین افہام و تفہیم کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 24 مارچ 1948ءکو ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقدہ جلسہ¿ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ :-”اردو وہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے‘ اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے اور دوسرے اسلامی ملکوں کی زبانوں سے قریب ترین ہے۔ یہ بات بھی اردو کے حق میں جاتی ہے اور یہ بہت اہم بات ہے کہ بھارت نے اردو کو دیس نکالا دے دیا ہے حتیٰ کہ اردو رسم الخط کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔“
بابائے قوم کے ان ارشادات کو سامنے رکھ کر آج ہم اپنا جائزہ لیں تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہم نے آپ کے دیگر ارشادات کی مانند انہیں بھی پس پشت ڈال رکھا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیے حکومتی سطح پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ بھارتی ٹیلی ویژن چینلز کی یلغار نے ہماری نسل نو کے زبان و بیان میں ہندی الفاظ کی آمیزش کو خطرناک حد تک فروغ دے دیا ہے ۔ اس پر مستزاد رومن اردو میں اشتہارات کی بھرمار ہے۔ اگر ہم پاکستان کی وحدت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اردو زبان کے فروغ بالخصوص نسل نو میں اس کی ترویج کے لیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کوششیں کرنا ہوں گی۔
تعمیر پاکستان کے لیے قائداعظمؒ کے ملک گیر دورے
قائداعظمؒ نے پاکستان کے قیام اور اسے ایک اسلامی‘ فلاحی‘ جمہوری مملکت کا روپ دینے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا لیا تھا جس کی تکمیل کی خاطر انہوں نے اپنی صحت کی بھی پرواہ نہ کی۔ کام کی زیادتی اور بے آرامی کے باعث بابائے قوم کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے مگر اس نوزائیدہ مملکت کو استحکام بخشنے کے لیے قائداعظمؒ نے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ چونکہ دشمنوں نے اس مملکتِ خداداد کا روزِ اوّل سے ہی گلا گھونٹنے کی مذموم کوششوں کا آغاز کر دیا تھا‘ اس لئے قائداعظمؒ نے ضروری جانا کہ ملک کے طو ل و عرض کے دورے کر کے عوام الناس اور سرکاری اہلکاروں سے براہِ راست مخاطب ہوں۔ صحت کے مسائل کے باوجود قائداعظمؒ ان دوروں پر گئے اور لوگوں کو مشکلات کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے اور سرکاری ملازمین کو پاکستان کے سچے خدمتگار بننے کی تلقین کی۔
عوام کو اپنے عظیم قائد سے والہانہ لگاﺅ تھا اور وہ اپنے محبوب رہنما کے جلسوں میں جوق درجوق شریک ہوتے تھے۔ آپ نے جہاں قیامِ پاکستان میں عوام کے تاریخی اور لازوال کردار کو سراہا‘ وہاں تعمیرِ پاکستان کی جدوجہد کے لیے رہنما اصول بھی بیان فرمائے۔ اس سلسلے میں قائداعظمؒ نے لاہور کے پنجاب یونیورسٹی سٹیڈیم میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کیا جس میں انہوں نے دورانِ ہجرت مسلمانوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے بھی اظہارِ خیال فرمایا۔ آپ نے کہا :-
”ہم نے اپنی منزلِ مقصود ”آزادی“ پالی ہے اور اےک آزاد‘ خود مختار اور دنےا کی پانچوےں بڑی مملکت پاکستان قائم ہوچکی ہے۔ اس برصغےر مےں رونما ہونے والے حالےہ اندوہناک واقعات سے ےہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلاءاور اےثار کے بغےر آزادی حاصل نہےں کرسکتی۔ ہم بے مثال دشوارےوں اور ناگفتہ بہ مصائب مےں گھرے ہوئے ہےں۔ ہم خوف اور اذےت کے تارےک اےام مےں سے ہوکر گزرے ہےں لےکن مےں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حوصلے‘ خود اعتمادی اور اللہ کی تائےد سے کامےابی ہمارے قدم چومے گی۔ (جاری ہے)