پاکستان بھارت بہتر تعلقات اور دو طرفہ تجارت کیلئے امریکہ کے بعد برطانیہ میں بھی سرگرم ہو گیا‘ ٹریڈ ود انڈیا کےلئے مغربی سفارت کار جس سرگرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
وہ بات سارے فسانے کا جو ماحصل تھا
اس بات کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہیں
برطانیہ جو مسئلہ کشمیر کا موجد ہے‘ وہ اپنی ایجاد کی حفاظت کرتا رہے گا اور ہم سے کہے گا کہ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو دیکھ لینا‘ اور امریکہ جو برطانیہ کا روحانی مرید ہے جبکہ مرشد میں رشد و ہدایت کا شائبہ تک نہیں۔ وہ بھی اسی کے قدموں کی چاپ جو خلاف حرم جاتی ہو‘ کی پیروی کرنے میں گرم قدم ہے۔ دو طرفہ تجارت کا امریکی برطانوی شوق و ذوق دراصل مسئلہ کشمیر کی نفی ہے۔
اب معلوم ہوا کہ یہ ہمارے ہاں کے نام نہاد محبانِ وطن کیوں بھارت سے تجارت پر زور دیتے ہیں کیونکہ حکومت امریکہ و برطانیہ کی آشیرباد ہی سے ملتی ہے۔ ووٹ بنک سے کب حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان بھارت بہتر تعلقات کے ہم جتنے خواہاں ہیں‘ اس قدر امریکہ برطانیہ نہیں‘ لیکن ایسے تعلقات جو کشمیر کے تنازعہ پر پردہ ڈالنے کی سازش ہوں‘ ان سے آگاہ بھی ہیں اور مقاصد کی خبر بھی رکھتے ہیں۔
آجکل ہمارے ساتھ اس چور کا سلوک ہو رہا ہے‘ جس نے جوہری کی دکان سے زیور چرائے تھے۔ مقدمہ جج کے پاس گیا‘ جج نے چور سے پوچھا‘ کیا تم نے زیور چرائے؟ چور نے کہا‘ ہاںجی! جج نے پھر پوچھا مگر کیوں؟ چور نے کہا‘ جوہری نے شوکیس پر لکھ رکھا تھا‘ سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
ایک ڈائیلاگ تھا کہ یہ غلطی کس کی تھی‘ تو ہیروئن نے جواب دیا‘ کچھ میری کچھ تمہاری۔
٭....٭....٭....٭
بینظیر بھٹو شہید کی سیکرٹری ناہید خان نے کہا ہے‘ زرداری اچھے کھلاڑی ضرور ہیں‘ سیاست دان نہیں۔ وہ مواقع سے فائدہ اٹھانے والے ہیں‘ کارکنوں میں اتنا بڑا سونامی پیدا ہو رہا ہے‘ جو ان سب کو بہا لے جائیگا۔
ناہید خان نے یہ نہیں بتایا کہ زرداری کس کھیل کے اچھے کھلاڑی ہیں‘ مان لیا کہ انکے مطابق زرداری اچھے سیاست دان نہیں‘ لیکن تھوڑی دیر کو وہ اپنی عقل سلیم کو اگر ہے‘ تو جگا کر پوچھیں کہ جب بی بی شہید ہوئی تھیں اور زرداری تعزیتی نشست پر بیٹھے تھے تو انکی جگہ ناہید خان ہوتیں تو وہ بیک وقت تعزیتیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ کیا پارٹی کو زندہ رکھ سکتیں؟ اور اتنی تدبیر کر سکتیں کہ ایسے نازک موقع پر انتخابات میں شرکت کرکے پارٹی کو جتا بھی دےتیں۔ مگر مردِحر نے تو یہ سب کچھ کر دکھایا۔ اپنی پارٹی سیاست کی حد تک وہ کامیاب رہے‘ کیا اسکے باوجود بھی وہ سیاست دان نہیں؟
شاید ناہید خان سیاست دان کو کھلاڑی سمجھتی ہوں‘ اس لحاظ سے وہ کونسا کھیل ہے جو زرداری نے کھیل کر پارٹی کو ڈبو دیا اور اب ورکرز کی سطح پر سونامی کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناہید خان اچھی سیکرٹری ثابت ہوئیں‘ مگر سیاست دان نہیں۔
البتہ انکے کھلاڑی ہونے میں کوئی شک نہیں‘ شاید انکی کوئی ٹیم ہے وگرنہ وہ اکیلی ایسا کھیل نہیں کھیل سکتیں جو سارا کھیل ہی بگاڑنے کیلئے مفید ثابت ہو۔ وہ اگر زرداری کے ہاتھ مضبوط کریں‘ انہیں اچھے مشورے دیں‘ بینظیر کی محب اگر مرحومہ کے شوہر سے کشاکش جاری رکھیں گی تو کیا بینظیر کی روح کو خوش کر سکیں گی؟
٭....٭....٭....٭
گورنر پنجاب نے کہا ہے‘ شہباز شریف سوچ سمجھ کر بولا کریں‘ جوشِ خطابت میں بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔
شہباز شریف‘ خطابت‘ محنت‘ سیاست‘ شرافت‘ امانت‘ دیانت‘ شرارت‘ طاقت سب کچھ کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں‘ اب یہ معلوم نہیں کہ گورنر کی مراد ان کا کونسا وصف ہے۔ سوچ اور سمجھ دو الگ چیزیں ہیں‘ ہمارے ملک میں دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکیں۔ جیسے اچھا خطیب اچھا عالم نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص حسنِ الفاظ اور حسن معانی کو اکٹھا نہیں کر سکتا‘ یہ صرف قرآن حکیم کا معجزہ ہے کہ حسنِ لفظ و معنی کو بیک وقت پیش کرتا ہے۔
شہباز شریف اپنی تقریر میں اچھی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں‘ گورنر صاحب ان پر نظر رکھا کریں کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے ”خذما صفادع ماکدر“ (جو صاف ہے‘ اسے پکڑ لو اور جو میلا ہے‘ اسے چھوڑ دو)۔ اس طرح گورنر صاحب ایک ہی قدم میں اہل صفا میں شامل ہو جائینگے اور صوفیاءکرام کی آخری صف میں تو کھڑے ہو ہی جائینگے۔ انہیں اور کیا چاہیے‘ یہ نہ ہو کہ جیسے بچے نے اپنے ابا سے پوچھا‘ اباجی کیڑے مکوڑے بھی کھائے جاتے ہیں؟ باپ نے جھڑکتے ہوئے کہا‘ کھانے کے دوران ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔“
اچھا نہ ہو گا کہ ہم اس حسین موقع پر جبکہ گورنر صاحب دھیمے سروں میں وزیراعلیٰ پر تنقید کرتے ہیں۔ تو حافظ کا یہ شعر دہرا دیں....
بہ درد و صاف ترا حکم نیست دم ور کش
کہ ہر ساقی ِماریخت عین الطاف است
(صاف اور تلچھٹ کی ہم پر کوئی پابندی نہیں‘ جو بھی ساقی نے ساغر میں انڈیل دیا‘ یہ اس کا انتہائی کرم ہے)
وہ بات سارے فسانے کا جو ماحصل تھا
اس بات کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہیں
برطانیہ جو مسئلہ کشمیر کا موجد ہے‘ وہ اپنی ایجاد کی حفاظت کرتا رہے گا اور ہم سے کہے گا کہ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو دیکھ لینا‘ اور امریکہ جو برطانیہ کا روحانی مرید ہے جبکہ مرشد میں رشد و ہدایت کا شائبہ تک نہیں۔ وہ بھی اسی کے قدموں کی چاپ جو خلاف حرم جاتی ہو‘ کی پیروی کرنے میں گرم قدم ہے۔ دو طرفہ تجارت کا امریکی برطانوی شوق و ذوق دراصل مسئلہ کشمیر کی نفی ہے۔
اب معلوم ہوا کہ یہ ہمارے ہاں کے نام نہاد محبانِ وطن کیوں بھارت سے تجارت پر زور دیتے ہیں کیونکہ حکومت امریکہ و برطانیہ کی آشیرباد ہی سے ملتی ہے۔ ووٹ بنک سے کب حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان بھارت بہتر تعلقات کے ہم جتنے خواہاں ہیں‘ اس قدر امریکہ برطانیہ نہیں‘ لیکن ایسے تعلقات جو کشمیر کے تنازعہ پر پردہ ڈالنے کی سازش ہوں‘ ان سے آگاہ بھی ہیں اور مقاصد کی خبر بھی رکھتے ہیں۔
آجکل ہمارے ساتھ اس چور کا سلوک ہو رہا ہے‘ جس نے جوہری کی دکان سے زیور چرائے تھے۔ مقدمہ جج کے پاس گیا‘ جج نے چور سے پوچھا‘ کیا تم نے زیور چرائے؟ چور نے کہا‘ ہاںجی! جج نے پھر پوچھا مگر کیوں؟ چور نے کہا‘ جوہری نے شوکیس پر لکھ رکھا تھا‘ سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
ایک ڈائیلاگ تھا کہ یہ غلطی کس کی تھی‘ تو ہیروئن نے جواب دیا‘ کچھ میری کچھ تمہاری۔
٭....٭....٭....٭
بینظیر بھٹو شہید کی سیکرٹری ناہید خان نے کہا ہے‘ زرداری اچھے کھلاڑی ضرور ہیں‘ سیاست دان نہیں۔ وہ مواقع سے فائدہ اٹھانے والے ہیں‘ کارکنوں میں اتنا بڑا سونامی پیدا ہو رہا ہے‘ جو ان سب کو بہا لے جائیگا۔
ناہید خان نے یہ نہیں بتایا کہ زرداری کس کھیل کے اچھے کھلاڑی ہیں‘ مان لیا کہ انکے مطابق زرداری اچھے سیاست دان نہیں‘ لیکن تھوڑی دیر کو وہ اپنی عقل سلیم کو اگر ہے‘ تو جگا کر پوچھیں کہ جب بی بی شہید ہوئی تھیں اور زرداری تعزیتی نشست پر بیٹھے تھے تو انکی جگہ ناہید خان ہوتیں تو وہ بیک وقت تعزیتیں وصول کرنے کے ساتھ ساتھ کیا پارٹی کو زندہ رکھ سکتیں؟ اور اتنی تدبیر کر سکتیں کہ ایسے نازک موقع پر انتخابات میں شرکت کرکے پارٹی کو جتا بھی دےتیں۔ مگر مردِحر نے تو یہ سب کچھ کر دکھایا۔ اپنی پارٹی سیاست کی حد تک وہ کامیاب رہے‘ کیا اسکے باوجود بھی وہ سیاست دان نہیں؟
شاید ناہید خان سیاست دان کو کھلاڑی سمجھتی ہوں‘ اس لحاظ سے وہ کونسا کھیل ہے جو زرداری نے کھیل کر پارٹی کو ڈبو دیا اور اب ورکرز کی سطح پر سونامی کی پیش گوئی کر رہی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناہید خان اچھی سیکرٹری ثابت ہوئیں‘ مگر سیاست دان نہیں۔
البتہ انکے کھلاڑی ہونے میں کوئی شک نہیں‘ شاید انکی کوئی ٹیم ہے وگرنہ وہ اکیلی ایسا کھیل نہیں کھیل سکتیں جو سارا کھیل ہی بگاڑنے کیلئے مفید ثابت ہو۔ وہ اگر زرداری کے ہاتھ مضبوط کریں‘ انہیں اچھے مشورے دیں‘ بینظیر کی محب اگر مرحومہ کے شوہر سے کشاکش جاری رکھیں گی تو کیا بینظیر کی روح کو خوش کر سکیں گی؟
٭....٭....٭....٭
گورنر پنجاب نے کہا ہے‘ شہباز شریف سوچ سمجھ کر بولا کریں‘ جوشِ خطابت میں بہت کچھ کہہ دیتے ہیں۔
شہباز شریف‘ خطابت‘ محنت‘ سیاست‘ شرافت‘ امانت‘ دیانت‘ شرارت‘ طاقت سب کچھ کا بہترین مظاہرہ کرتے ہیں‘ اب یہ معلوم نہیں کہ گورنر کی مراد ان کا کونسا وصف ہے۔ سوچ اور سمجھ دو الگ چیزیں ہیں‘ ہمارے ملک میں دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکیں۔ جیسے اچھا خطیب اچھا عالم نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص حسنِ الفاظ اور حسن معانی کو اکٹھا نہیں کر سکتا‘ یہ صرف قرآن حکیم کا معجزہ ہے کہ حسنِ لفظ و معنی کو بیک وقت پیش کرتا ہے۔
شہباز شریف اپنی تقریر میں اچھی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں‘ گورنر صاحب ان پر نظر رکھا کریں کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے ”خذما صفادع ماکدر“ (جو صاف ہے‘ اسے پکڑ لو اور جو میلا ہے‘ اسے چھوڑ دو)۔ اس طرح گورنر صاحب ایک ہی قدم میں اہل صفا میں شامل ہو جائینگے اور صوفیاءکرام کی آخری صف میں تو کھڑے ہو ہی جائینگے۔ انہیں اور کیا چاہیے‘ یہ نہ ہو کہ جیسے بچے نے اپنے ابا سے پوچھا‘ اباجی کیڑے مکوڑے بھی کھائے جاتے ہیں؟ باپ نے جھڑکتے ہوئے کہا‘ کھانے کے دوران ایسی باتیں نہیں کی جاتیں۔“
اچھا نہ ہو گا کہ ہم اس حسین موقع پر جبکہ گورنر صاحب دھیمے سروں میں وزیراعلیٰ پر تنقید کرتے ہیں۔ تو حافظ کا یہ شعر دہرا دیں....
بہ درد و صاف ترا حکم نیست دم ور کش
کہ ہر ساقی ِماریخت عین الطاف است
(صاف اور تلچھٹ کی ہم پر کوئی پابندی نہیں‘ جو بھی ساقی نے ساغر میں انڈیل دیا‘ یہ اس کا انتہائی کرم ہے)