ترقی یافتہ ویٹو پاور رکھنے والا یو کے جس کی ایک زمانے میں آدھی سے زیادہ دنیا پر حکمرانی تھی اب سکڑ کر ایک جزیرہ نما کی صورت میں رہ گیا ہے ۔ کبھی لندن کے حکمران بڑے فخر سے کہتے تھے کہ شہنشاہ برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا اور آج بھی کامن ویلتھ کے نام سے 60سے زائد ممالک اسکے زیراثر ہیں جبکہ آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے باشندے برطانوی نسل سے ہونے کی وجہ سے آج بھی سلطنت برطانیہ کی کالونی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملکہ برطانیہ کی حکمرانی میں رہ رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں امیگرنٹس (تارکین) ہر سال برطانیہ کا رخ کرتے ہیں‘ خصوصاً برصغیر پاک و ہند کو جب برطانوی راج سے آزادی ملی تو انگریز واپس چلا گیا مگر وہ کشمیر سمیت دیگر اہم مسائل ہمارے لیے چھوڑ گیا جبکہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ اور امراءکے بچوں کی تعلیم آکسفورڈ کے بغیرمکمل نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے جاگیردار اور سرمایہ دار،مخدوم ، نواب، لغاری، مزاری، وٹو، چوہدری، خواجے خود تو پاکستان میں رہتے ہیں مگر انکی اولادیں آج بھی برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کو فخر سمجھتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ٹیکس چور حکمرانوں اور امراءکے اکثر بینک اکاﺅنٹس تاج برطانیہ کے زیر سایہ ہی انگلینڈ میں کھلوائے جاتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کےمطابق آج بھی ہر سال برطانوی ویزے کیلئے سالانہ 7ارب روپے فیسوں کی مد میں برطانیہ منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ صرف 7سے10 فیصد امیدواروں کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں اور تقریباً 90فیصد مسترد درخواستوں کو اپیل تک کا حق حاصل نہیں ہوتا مسترد درخواست گزاروں کی فیس بھی واپس نہیں کی جاتی جو آج کل ستر ہزار روپے ہے۔ بے روزگاری کا برطانیہ میں یہ عالم ہے کہ 30فیصد لوگ سوشل سیکورٹی کی مدد کے بغیرجینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے حالیہ معاشی بحران کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بہت جلد اس کا اثر برطانیہ میں بھی محسوس کیا جا سکے گا۔ ڈی ایس ایس جو غریبوں کی مدد کیلئے بنایا گیا ادارہ ہے اسکے پاس اب بانٹنے کو باقی کچھ نہیں بچا۔ جن لوگوں کو پہلے 60پاﺅنڈ ہفتہ فی کس بے روزگاری الاﺅنس ملتا تھا، اب اس کو کم کرکے 30پاﺅنڈ کر دیا گیاہے جبکہ لیورپول، برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر، سلیفرڈ کے شہروں میں انڈسٹری بند ، کارخانے دیوالیہ، فیکٹریاں تباہ حال اور ان علاقوں کے بے روزگار نوجوان منشیات کے دھندے یا پھر چوری چکاری میں پڑ گئے ہیں۔ انگلینڈ میں بسنے والے ایشیائی خصوصاً ایشیائی مسلم نوجوان دربدر بھٹک رہے ہیں۔ ان حالات میں مذہب ہی ایک ایسا راستہ ہے جو انہیں سکون فراہم کرتا ہے آج انگلینڈ کے مسلم نوجوان کا مذہب کی طرف راغب ہونا، جہادی تنظیموں میں حصہ لینا، افغان جنگ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں پیدائشی برٹش مسلم نوجوان کی شرکت اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔
پھر 7 جولائی کے واقعات نے چند سال پیشتر انگلینڈ کو ہلا کر رکھ دیا تھا‘ جس کے بعد انگلستان میں بسنے والے مسلم خاندانوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا‘ جس طرح امریکہ میں یہودی آبادکاروں نے پوری امریکی معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں بسنے والے صرف 3 فیصد یہودی پورے برطانیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور جس طرح 5 فیصد یہودیوں نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے اسلامی تشخص سے گھبرا کر نائن الیون کا ڈرامہ رچایا تھا، اسی طرح 3فیصد یہودیوں نے انگلستان میں 7\\\\7 کا ڈرامہ رچا کر برطانیہ سے تارکین وطن کے راستے روکے۔ 7جولائی کے واقعات کے بعد برطانیہ نے اپنی ویزا پالیسی میں سختی کی اور اب جائز طریقے سے برطانیہ جا کر Settle ہونے کے امکانات کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔ اس طرح برطانیہ میں مسلمانوں کی افزائش کو ایک بریک لگا دی گئی مگر پاکستانی،بنگلہ دیشی، بھارتی یا سری لنکن ہی واحد امیگرنٹس نہیں بلکہ افریقہ ، عرب، یورپ، امریکہ، جنوبی امریکہ ،ساﺅتھ امریکہ اور Caribbean، ویسٹ انڈیز، جمائیکہ کے لوگ کروڑوں کی تعداد میں لندن سمیت پورے انگلینڈ میں آباد ہیں‘ جن کےساتھ مقامی کمیونٹی کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ”جناں دے گھر دانے، انہاں دے کملے وی سیانے“ کے مصداق پہلے تو سونے کی چڑیا برصغیر سے چرائے جانےوالے اثاثے اور دولت موجود تھی۔ دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت موجود تھی‘ اس لیے انگلینڈ سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنا رہا۔ اب ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خزانے خالی ہو رہے ہیں۔ جن بوتل سے باہر آگئے ہیں‘ اب مسائل کے انبار لگ جائینگے۔
انگلینڈ میں فسادات کا پھوٹ پڑنا کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی کسی ایک واقعے کو بنیاد بنا کر ایسے متعدد خونیں واقعات جنم لے چکے ہیں‘ جن میں 1980ءمیں سینٹ پال کے فسادات جس میں ایک پولیس مین نے ایک عورت کو ریپ کیا تھا، جس کے بعد لندن میں لگی آگ کو بجھانا مشکل ہو گیا تھا۔ پھر 1981ءمیں Chapeltownمیں نسلی فسادات نے جس کے پیچھے بڑھتی ہوئی غربت اور محرومیاں تھیں، انگلینڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔پھر مارگریٹ تھیچر کے زمانے میں 1985ءمیں ہونےوالے فسادات سے یوں لگتا تھا کہ شاید تاج برطانیہ اب زیادہ دیر سنبھل نہ پائے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سالوں میں برطانیہ میں ہونےوالے خارجہ فیصلے تاج برطانیہ کیلئے خطرات کی گھنٹی بجانے لگے۔ بالخصوص جارج بش کے زمانہ میں جب برٹش وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مملکت برطانیہ کو امریکی جھولی میں گِرا دیا اور بین الاقوامی برادری میں گریٹ بریٹن برطانیہ عظمٰی کو امریکی صدر کا (Puppy) چھوٹا کتا پکارا جانے لگا، جس کی رسّی امریکہ کے ہاتھ میں تھی اور عالمی دنیا میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر امریکی فیصلے کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لینا اب برطانیہ کے عوام پر لازم قرار پا چکا ہے۔ برطانوی اقتدار اعلیٰ کو ٹونی بلیئر کے زمانے میں جو نقصان پہنچا اس کا خمیازہ آنیوالی حکومتوں کو بھگتنا پڑا۔
ویسے بھی مشہور ہے کہ برطانیہ میں جب بھی کنزرویٹو پارٹی اقتدا رمیں آتی ہے، اسے نظر لگ جاتی ہے۔ اور وہ اپنے اقتدار کا سارا عرصہ ان مسائل میں گھِری گزار کر اور انہیں حل کرتے کرتے اقتدار ٹوری پارٹی کے حوالے کر جاتی ہے۔ اب بھی جب سے نئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اقتدار سنبھالا ہے، حالیہ واقعات کے علاوہ تین بڑے ایشوز نے کنزرویٹو وزیراعظم کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ وزیراعظم کے اقتدار میں آنے کے چند ہی دن بعد سٹوڈنٹس کی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا جبکہ باقی یورپ میں تعلیم یا تو فری ہے یا پھر برائے نام اخراجات ، جنہیں طالب علموں کو ریاست کی جانب سے ملنے والے وظیفہ جات سے پورا کر لیا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں جہاں اوسطاً ماہانہ آمدنی 800 پاﺅنڈ سے 1000 پاﺅنڈ ہے، وہاں طالب علم کو یونیورسٹی کیلئے سالانہ کم ا زکم دس ہزار پونڈ چاہئیں۔ اس مہنگائی کے دور میں تعلیم کے حصول کو انگلینڈ میں تقریباً ناممکن بنا دیا گیا اور دوران تعلیم طالب علم سے جاب کرنے کی سہولت واپس لے لی گئی، جس کی وجہ سے کروڑوں طالب علموں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا۔ اور دوسرا واقعہ موجودہ وزیراعظم کیمرون ڈیوڈ کے دور میں یہ ہوا کہ مختلف سیاست دانوں اور اعلیٰ افسران اور شاہی خاندان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا سکینڈل سامنے آیا‘ جس پر لندن پولیس کمشنر پاﺅل سٹیفن اور اسکے اسسٹنٹ کو مستعفی ہونا پڑا اور پھر لندن میں ہونےوالی جی ٹونٹی G-20) ممالک کی کانفرنس جو اختلافی اور متنازعہ صورتحال اختیار کر گئی، جس کی وجہ سے وزیراعظم بس جاتے جاتے ہی بچے۔ ٹیلی فون سکینڈل میں ایک جرنلسٹ کو بھی قتل کر دیا گیا جس کا تعلق نیوز آف دی ورلڈ نامی سکینڈل اخبار سے تھا، بعدازاں اس اخبار کو بھی بند کرنا پڑا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حالیہ فسادات میں جو ایک نئی چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تقریباً وہ تمام سٹور اور کاروباری ادارے جوجلائے گئے، تباہ ہوئے جن پر حملہ کیا گیا وہ سب یہودی تاجروں کی ملکیت ہیں۔ ان اداروں میں Curry\\\'s ، پی سی وڈلڈ اور سونے کا بین الاقوامی Pawn شاپ خریدوفروخت کا بزنس کرنےوالی کمپنی اور اسکے علاوہ بک میکر متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سب کاروبار یہودیوں کی اجارہ داری میں چل رہے تھے۔ ان کمپنیوں کی تباہی اور جلاﺅگھیراﺅ سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کمپنیاں پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زیادہ نقصان میں جا رہی تھیں‘ جسکی وجہ سے یہودی تاجروں ،سرمایہ داروں نے خود ہی یہ ڈرامہ رچایا ہوگا یا پھر برطانیہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، معاشی بدحالی، برطانوی معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے عوام کے ایک طبقے میں خون نچوڑنے والی ان یہودی کمپنیوں کےخلاف رائے عامہ اور عوامی نفرت کی وجہ سے یہ ردعمل ہوا ہوگا۔ ایک تیسری وجہ ان فسادات کی یہ ہے کہ برطانیہ میں نئی اصلاحات کی وجہ سے عوام شدید مہنگائی کا شکار ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ بےروزگار ہیں، ہسپتالوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ ایک شخص کو دانت درد یا کان کا درد آج ہو رہا ہو تو اسے ڈاکٹر سے اپوائنٹ منٹ 6ماہ سے ایک سال بعد کی ملتی ہے۔
غریب آدمی کی حالت انگلینڈ میں اس قدر خراب ہے کہ زندہ رہنے کےلئے اب چرانا اور چھیننا ہی جاب اختیار کر لیا گیا ہے ۔ حالیہ فسادات میں ایشیائی بزنس مینوں کو بھی شدید نقصان پہنچا‘ 6لوگ جان کی بازی ہارے ہزاروں دوکانوں، پلازوں اور سنٹروں کو آگ لگا دی گئی۔ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ سینکڑوں پولیس مین زخمی ہوئے۔ لندن میں تعینات 30ہزار پولیس کی امداد کیلئے 16ہزار مزید نفری منگوا لی گئی ہے مگر فسادات کی آگ انگلینڈ کے تمام شہروں تک پھیلتی رہی۔ اضافی نفری کو انکے صوبے واپس منگوا رہے ہیں کیونکہ آگ کا احاطہ ان کے گھر تک پہنچ چکا ہے‘ یقینا یہ برٹش تاریخ کے اندوہناک لمحات ہیں، جن کے پیچھے معاشی معاشرتی نسلی اور دیگر وجوہات ہیں، جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے برطانیہ کو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یاد رکھنا ہوگا یہ انیسویں صدی نہیں 2011ءہے‘ جس میں سامراجی ہتھکنڈے استعمال کرکے اب عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
ایک محتاط اندازے کےمطابق آج بھی ہر سال برطانوی ویزے کیلئے سالانہ 7ارب روپے فیسوں کی مد میں برطانیہ منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ صرف 7سے10 فیصد امیدواروں کو ویزے جاری کیے جاتے ہیں اور تقریباً 90فیصد مسترد درخواستوں کو اپیل تک کا حق حاصل نہیں ہوتا مسترد درخواست گزاروں کی فیس بھی واپس نہیں کی جاتی جو آج کل ستر ہزار روپے ہے۔ بے روزگاری کا برطانیہ میں یہ عالم ہے کہ 30فیصد لوگ سوشل سیکورٹی کی مدد کے بغیرجینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ امریکہ کے حالیہ معاشی بحران کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ بہت جلد اس کا اثر برطانیہ میں بھی محسوس کیا جا سکے گا۔ ڈی ایس ایس جو غریبوں کی مدد کیلئے بنایا گیا ادارہ ہے اسکے پاس اب بانٹنے کو باقی کچھ نہیں بچا۔ جن لوگوں کو پہلے 60پاﺅنڈ ہفتہ فی کس بے روزگاری الاﺅنس ملتا تھا، اب اس کو کم کرکے 30پاﺅنڈ کر دیا گیاہے جبکہ لیورپول، برمنگھم، بریڈ فورڈ اور مانچسٹر، سلیفرڈ کے شہروں میں انڈسٹری بند ، کارخانے دیوالیہ، فیکٹریاں تباہ حال اور ان علاقوں کے بے روزگار نوجوان منشیات کے دھندے یا پھر چوری چکاری میں پڑ گئے ہیں۔ انگلینڈ میں بسنے والے ایشیائی خصوصاً ایشیائی مسلم نوجوان دربدر بھٹک رہے ہیں۔ ان حالات میں مذہب ہی ایک ایسا راستہ ہے جو انہیں سکون فراہم کرتا ہے آج انگلینڈ کے مسلم نوجوان کا مذہب کی طرف راغب ہونا، جہادی تنظیموں میں حصہ لینا، افغان جنگ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں پیدائشی برٹش مسلم نوجوان کی شرکت اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔
پھر 7 جولائی کے واقعات نے چند سال پیشتر انگلینڈ کو ہلا کر رکھ دیا تھا‘ جس کے بعد انگلستان میں بسنے والے مسلم خاندانوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا‘ جس طرح امریکہ میں یہودی آبادکاروں نے پوری امریکی معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی طرح انگلستان میں بسنے والے صرف 3 فیصد یہودی پورے برطانیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور جس طرح 5 فیصد یہودیوں نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے اسلامی تشخص سے گھبرا کر نائن الیون کا ڈرامہ رچایا تھا، اسی طرح 3فیصد یہودیوں نے انگلستان میں 7\\\\7 کا ڈرامہ رچا کر برطانیہ سے تارکین وطن کے راستے روکے۔ 7جولائی کے واقعات کے بعد برطانیہ نے اپنی ویزا پالیسی میں سختی کی اور اب جائز طریقے سے برطانیہ جا کر Settle ہونے کے امکانات کو بہت حد تک کم کر دیا ہے۔ اس طرح برطانیہ میں مسلمانوں کی افزائش کو ایک بریک لگا دی گئی مگر پاکستانی،بنگلہ دیشی، بھارتی یا سری لنکن ہی واحد امیگرنٹس نہیں بلکہ افریقہ ، عرب، یورپ، امریکہ، جنوبی امریکہ ،ساﺅتھ امریکہ اور Caribbean، ویسٹ انڈیز، جمائیکہ کے لوگ کروڑوں کی تعداد میں لندن سمیت پورے انگلینڈ میں آباد ہیں‘ جن کےساتھ مقامی کمیونٹی کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ”جناں دے گھر دانے، انہاں دے کملے وی سیانے“ کے مصداق پہلے تو سونے کی چڑیا برصغیر سے چرائے جانےوالے اثاثے اور دولت موجود تھی۔ دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت موجود تھی‘ اس لیے انگلینڈ سوشل ویلفیئر سٹیٹ بنا رہا۔ اب ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خزانے خالی ہو رہے ہیں۔ جن بوتل سے باہر آگئے ہیں‘ اب مسائل کے انبار لگ جائینگے۔
انگلینڈ میں فسادات کا پھوٹ پڑنا کوئی نئی بات نہیں ماضی میں بھی کسی ایک واقعے کو بنیاد بنا کر ایسے متعدد خونیں واقعات جنم لے چکے ہیں‘ جن میں 1980ءمیں سینٹ پال کے فسادات جس میں ایک پولیس مین نے ایک عورت کو ریپ کیا تھا، جس کے بعد لندن میں لگی آگ کو بجھانا مشکل ہو گیا تھا۔ پھر 1981ءمیں Chapeltownمیں نسلی فسادات نے جس کے پیچھے بڑھتی ہوئی غربت اور محرومیاں تھیں، انگلینڈ کو ہلا کر رکھ دیا۔پھر مارگریٹ تھیچر کے زمانے میں 1985ءمیں ہونےوالے فسادات سے یوں لگتا تھا کہ شاید تاج برطانیہ اب زیادہ دیر سنبھل نہ پائے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گذشتہ سالوں میں برطانیہ میں ہونےوالے خارجہ فیصلے تاج برطانیہ کیلئے خطرات کی گھنٹی بجانے لگے۔ بالخصوص جارج بش کے زمانہ میں جب برٹش وزیراعظم ٹونی بلیئر نے مملکت برطانیہ کو امریکی جھولی میں گِرا دیا اور بین الاقوامی برادری میں گریٹ بریٹن برطانیہ عظمٰی کو امریکی صدر کا (Puppy) چھوٹا کتا پکارا جانے لگا، جس کی رسّی امریکہ کے ہاتھ میں تھی اور عالمی دنیا میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہر امریکی فیصلے کو آنکھیں بند کرکے تسلیم کر لینا اب برطانیہ کے عوام پر لازم قرار پا چکا ہے۔ برطانوی اقتدار اعلیٰ کو ٹونی بلیئر کے زمانے میں جو نقصان پہنچا اس کا خمیازہ آنیوالی حکومتوں کو بھگتنا پڑا۔
ویسے بھی مشہور ہے کہ برطانیہ میں جب بھی کنزرویٹو پارٹی اقتدا رمیں آتی ہے، اسے نظر لگ جاتی ہے۔ اور وہ اپنے اقتدار کا سارا عرصہ ان مسائل میں گھِری گزار کر اور انہیں حل کرتے کرتے اقتدار ٹوری پارٹی کے حوالے کر جاتی ہے۔ اب بھی جب سے نئے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اقتدار سنبھالا ہے، حالیہ واقعات کے علاوہ تین بڑے ایشوز نے کنزرویٹو وزیراعظم کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ وزیراعظم کے اقتدار میں آنے کے چند ہی دن بعد سٹوڈنٹس کی فیسوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا جبکہ باقی یورپ میں تعلیم یا تو فری ہے یا پھر برائے نام اخراجات ، جنہیں طالب علموں کو ریاست کی جانب سے ملنے والے وظیفہ جات سے پورا کر لیا جاتا ہے جبکہ برطانیہ میں جہاں اوسطاً ماہانہ آمدنی 800 پاﺅنڈ سے 1000 پاﺅنڈ ہے، وہاں طالب علم کو یونیورسٹی کیلئے سالانہ کم ا زکم دس ہزار پونڈ چاہئیں۔ اس مہنگائی کے دور میں تعلیم کے حصول کو انگلینڈ میں تقریباً ناممکن بنا دیا گیا اور دوران تعلیم طالب علم سے جاب کرنے کی سہولت واپس لے لی گئی، جس کی وجہ سے کروڑوں طالب علموں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا۔ اور دوسرا واقعہ موجودہ وزیراعظم کیمرون ڈیوڈ کے دور میں یہ ہوا کہ مختلف سیاست دانوں اور اعلیٰ افسران اور شاہی خاندان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا سکینڈل سامنے آیا‘ جس پر لندن پولیس کمشنر پاﺅل سٹیفن اور اسکے اسسٹنٹ کو مستعفی ہونا پڑا اور پھر لندن میں ہونےوالی جی ٹونٹی G-20) ممالک کی کانفرنس جو اختلافی اور متنازعہ صورتحال اختیار کر گئی، جس کی وجہ سے وزیراعظم بس جاتے جاتے ہی بچے۔ ٹیلی فون سکینڈل میں ایک جرنلسٹ کو بھی قتل کر دیا گیا جس کا تعلق نیوز آف دی ورلڈ نامی سکینڈل اخبار سے تھا، بعدازاں اس اخبار کو بھی بند کرنا پڑا۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حالیہ فسادات میں جو ایک نئی چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ تقریباً وہ تمام سٹور اور کاروباری ادارے جوجلائے گئے، تباہ ہوئے جن پر حملہ کیا گیا وہ سب یہودی تاجروں کی ملکیت ہیں۔ ان اداروں میں Curry\\\'s ، پی سی وڈلڈ اور سونے کا بین الاقوامی Pawn شاپ خریدوفروخت کا بزنس کرنےوالی کمپنی اور اسکے علاوہ بک میکر متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سب کاروبار یہودیوں کی اجارہ داری میں چل رہے تھے۔ ان کمپنیوں کی تباہی اور جلاﺅگھیراﺅ سے دو چیزیں سامنے آئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کمپنیاں پچھلے کچھ عرصہ سے بہت زیادہ نقصان میں جا رہی تھیں‘ جسکی وجہ سے یہودی تاجروں ،سرمایہ داروں نے خود ہی یہ ڈرامہ رچایا ہوگا یا پھر برطانیہ میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ، معاشی بدحالی، برطانوی معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے عوام کے ایک طبقے میں خون نچوڑنے والی ان یہودی کمپنیوں کےخلاف رائے عامہ اور عوامی نفرت کی وجہ سے یہ ردعمل ہوا ہوگا۔ ایک تیسری وجہ ان فسادات کی یہ ہے کہ برطانیہ میں نئی اصلاحات کی وجہ سے عوام شدید مہنگائی کا شکار ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ کروڑوں لوگ بےروزگار ہیں، ہسپتالوں کی حالت بہت پتلی ہے۔ ایک شخص کو دانت درد یا کان کا درد آج ہو رہا ہو تو اسے ڈاکٹر سے اپوائنٹ منٹ 6ماہ سے ایک سال بعد کی ملتی ہے۔
غریب آدمی کی حالت انگلینڈ میں اس قدر خراب ہے کہ زندہ رہنے کےلئے اب چرانا اور چھیننا ہی جاب اختیار کر لیا گیا ہے ۔ حالیہ فسادات میں ایشیائی بزنس مینوں کو بھی شدید نقصان پہنچا‘ 6لوگ جان کی بازی ہارے ہزاروں دوکانوں، پلازوں اور سنٹروں کو آگ لگا دی گئی۔ سینکڑوں گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔ سینکڑوں پولیس مین زخمی ہوئے۔ لندن میں تعینات 30ہزار پولیس کی امداد کیلئے 16ہزار مزید نفری منگوا لی گئی ہے مگر فسادات کی آگ انگلینڈ کے تمام شہروں تک پھیلتی رہی۔ اضافی نفری کو انکے صوبے واپس منگوا رہے ہیں کیونکہ آگ کا احاطہ ان کے گھر تک پہنچ چکا ہے‘ یقینا یہ برٹش تاریخ کے اندوہناک لمحات ہیں، جن کے پیچھے معاشی معاشرتی نسلی اور دیگر وجوہات ہیں، جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے برطانیہ کو اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یاد رکھنا ہوگا یہ انیسویں صدی نہیں 2011ءہے‘ جس میں سامراجی ہتھکنڈے استعمال کرکے اب عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔