دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے بخشش اور رحمت سے بھرے ماہ صیام یعنی رمضان المبارک کا آغازہوچکا ہے ۔ کہیں دوسرا اور کہیں تیسرا روزہ ہے۔ ہر سال یہ ماہ مبارک امت مسلمہ کیلئے اللہ کی راہ میں اپنی خواہشات کو قربان کرنے کا پیغام لاتا ہے۔ یہ ماہ مبارک ایثار، صلہ رحمی، کم وسیلہ لوگوں کی مدد، اپنے نفس اور خواہشات پر قابو پانے کا درس دیتا ہے۔ بے شک یہ ماہ روح اور جسم کی بالیدگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ واحد راز ہے جو بندے اور رب کے درمیان مخفی ہوتا ہے۔ نماز ادا کریں پتہ چلتا ہے، نہ کریں تب بھی پتہ چلتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کریں سب کو خبر ہوتی ہے، نہ ادا کریں اس کی خبر بھی ہوتی ہے،حج ادا کریں دور دور تک شہرہ ہوتا ہے،نہ ادا کریں وہ بھی نظر آتا ہے۔ مگر یہ حکم الٰہی کے تحت فجر تا مغرب اپنے وجود کو نفس کو ہر اس شہ سے روکنا جس کا حکم خدا اور اس کے رسولؐ نے دیاہے اس کا علم صرف بندے اور رب کو ہوتا ہے۔ اس لئے رب نے اس کی جزا سب سے جدا رکھی ہے۔ کوئی نہیں جانتا کس کا روزہ ہے کس کا نہیں۔یہ صرف رب ہی جانتا ہے۔
ایک بندہ جب رضا الٰہی کیلئے ہر موسم میں خواہ سردی ہو یا گرمی صرف اور صرف اپنے رب کی رضا کیلئے بھوکا پیاسا پورا دن بسر کرتا ہے، نماز ادا کرتا ہے۔ اسی حالت میں دنیاوی امور بھی سرانجام دیتا ہے۔ ساتھ ہی برے کاموں اور باتوں سے اجتناب کرتا ہے۔ اپنی بھوک پیاس سے بے پرواہ دفتر یا دکان، خندہ پیشانی سے مصروف رہتا ہے۔ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ صبروشکر کے جذبات سے لبریز لمحات میں روزہ افطار کرتا ہے۔ ہمت والے عشاء کے بعد تراویح کا اہتمام کرتے ہیں، باقی لوگ گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ نیکیوں کی بہار کا مہینہ ہے۔ اسے رحمت کا بخشش کا مہینہ کہا جاتا ہے ہر ایک نیک عمل پر ستر گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔تو پھر کیوں نہ ہم اس بھرپور منافع والے مہینہ میں اپنے رب سے تجارت کریں ہر نیک اور اچھے کام پر ستر گنا زیادہ اجر پائیں۔
اگر ہم صرف اس بات کو مدنظر رکھیں گے ہمارا جینا مرنا، نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج تمام مالی وبدنی عبادت اللہ کیلئے ہیں اوروہی ہمیں اس کا بہترین اجر دے گا تو یہ ماہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کا متقاضی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ نماز کے وقت دوڑتے ہوئے مسجد کی پہلی صف میں زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے جانے والے ہمارے تاجر بھائی، دکاندار بھائی، ریڑھی والے بھائی ، خواہ پھل فروش ہوں یا دودھ فروش، کریانہ والے ہوں یا سپر سٹور والے گوشت والے ہوں یا سبزی والے ہوں یا پکوڑے والے نجانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو شخص خدا کے بندوں کیلئے زندگی دوبھر کرتا ہے انہیں اذیت اور تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ اس مقدس ماہ کا آغاز ہوتے ہی ہر چیز کے نرخ بڑھا دیتا ہے۔ ان کے روزے کی حالت میں اس بے ایمانی پر اس بے ایمانی سے حاصل شدہ مال سے روزہ افطار کرنے کا معاملہ بھی اللہ کریم کے پاس ہے جو ان کی اس منافقانہ چالوں سے بخوبی باخبر ہے۔ لاکھوں کروڑوں بندگان خدا کو کھانے پینے کی نعمتوں سے دور کرنے والے ان لوگوں کے اپنے روزے اور نماز کی اس مالک کے دربار میں کیا حیثیت ہوگی جو ہمہ وقت غریبوں، ناداروں، بے کسوں کی مدد کا چارہ گری کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایسے لوگوں کی یہ عبادات قبول ہوں گی جو غریب روزے داروں کے منہ کا نوالہ چھین رہے ہیں۔ 10 روپے کی چیز رمضان المبارک کے ماہ میں 20 روپے کی فروخت کرتے ہیں۔ کیایہی مہینہ رہ گیا تھا ناجائز طریقوں سے منافع کمانے کا۔ یہ تو اللہ کے خزانوں سے منافع لینے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ اگر ایک نیکی پر 70 گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ تو سوچ لیں گناہ پر زیادتی پر سزا کتنی سخت اور زیادہ ہوگی۔ اس لئے اگر ہمارے تاجر، دکاندار، ریڑھی والے ، سپر سٹورز کے مالکان ، ملز مالکان خوف خدا کریں یا خدا کی محبت سے سرشار ہوکر خدا کے بندوں کیلئے نرمی، آسانی اور ارزانی کی راہ اختیار کریں تو ملک بھر کے کروڑوں غریب لوگوں کو ا س کا فائدہ ہوگا اور انہیں روزے رکھنے میں سہولت ملے گی یوں افطار کے وقت ان کے اجروثواب میں یہ تاجر، دکاندار، ملز مالکان بھی خودبخود شریک ہوجائیں گے۔عوام کو ارزاں نرخوں پر کھانے پینے کی اشیاء خاص طور پر روزمرہ استعمال ہونے والے کچن آئٹمز کی فراہمی حکومت اولین ذمہ داری ہے۔ خدا کرے موجودہ رمضان میں حکومت اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے میں کامیاب رہے۔ حکومت کے پاس بے شمار لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر نیت ٹھیک ہو تو یہ کام کوئی مشکل نہیں ہے۔ احساس پروگرام کے تحت اگر ٹرکوں میں کھانا مہیا کیا جاسکتا ہے تو اشیاء خوردونوش سے بھرے ٹرالے ملک کے ہر شہر اور دیہات میں ارزاں نرخوں پر فراہم کرنے کیلئے بھجوائے جاسکتے ہیں۔ عارضی ہی سہی ایک ماہ تک سستے رمضان بازاروں میں حقیقت میں معیاری سامان، سبزیاں، پھل، آٹا، دل ، چاول، چینی، گھی کی سرکاری نرخوں پر فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
اسی طرح خود تاجر بھی خوف خدا کے تحت بہترین اجروثواب کی نیت سے بازاروں میں گرانی اور مہنگائی کو ختم کرکے سرکاری نرخوں پر یا معمولی منافع پر اشیاء کی فراہمی یقینی بنائیں۔ پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بڑے دنوں یا مقدس ایام میں ہر چیز پر 40 سے 50 فیصد تک رعایت ملتی ہے۔ تاکہ غریب غرباء بھی فائدہ اٹھائیں تو کیا ہمارے مسلمان بھائی ایسا نہیں کرسکتے کیا ہم کفار سے بھی گئے گزرے ہیں قیمتیں کم کریں تاکہ غریب مسلمان بھی اس مقدس ماہ کی برکات سے فیض یاب ہوں اور بازار میں ہر چیز انہیں آدھی قیمت پر ملے۔ 11 ماہ کمانے کیلئے ہوتے ہیں یہ ایک ماہ راہ خدا میں لٹانے کا درس دیتا ہے تو کیوں نہ راہ خدا میں لٹانے کا مزہ لیا جائے ،خدا سے تجارت کی جائے ایک ماہ ہی سہی اور ستر فیصد زیادہ منافع کمایا جائے…
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024