عظمت خواتین کا استعارہ
آغا سید حامد علی شاہ موسوی
باپ بیٹیوں کی باہمی محبت ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے لیکن باپ بیٹی کی محبت کی معراج کا جو منظر انسانیت نے حضرت محمد مصطفیؐ اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓ اس کی صورت دیکھا تاریخ انسانیت اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔جہاں باپ بیٹی کی یہ محبت سنت رسول ؐکی شکل میں مسلمانوں کیلئے تا ابد باعث تقلید بن گئی وہیں خداوند عالم نے ان دونوں ہستیوں کے مقام کو عظمت و رفعت کے درجہ کمال تک پہنچا دیا۔والد گرامی اگر شافع محشر ؐہیں تو بیٹی خاتون جنت ٹھہریں، والد گرامیؐ اگر فخر موجودات ہیں تو بیٹی سید النسائ العالمین ہیں، والد گرامی کا اسوہ اخلاق حسنہ کا نمونہ ہیں تو بیٹی کو خواتین کیلئے اسوہ کامل کہا گیا،والد گرامی نے احد و خندق میں زخم کھائے تو بیٹی ان زخموں کا مرہم بنتی رہیں،بابا نے کفر و بت پرستی کے شکار انسانوں کو مرکز توحید پر جمع کیا تو بیٹی کی عظمت و ہیبت دیکھ کر مریم ؑو عیسیؑ کے پیروکار اسلام کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگئے، والد گرامی کی نصرت کیلئے بدر میں فرشتے اترے تو بیٹی کے ایثار و قربانی کے صلے میں آسمانوں سے خوان اترتے رہے، والد گرامی کی تعظیم حضرت آدم سے عیسیٰ ؑتک ہر نبی پر واجب تھی تو بیٹی کی تعظیم کیلئے نبیوں کے سردار خود ایستادہ ہوجاتے، بابا پر درود بھیجنا عبادتوں کی قبولیت کی سند ٹھہرا تو بیٹی کے دروازے پر خیر البشر سلام کی صدائیں بلند کرتے رہے، والد گرامی نے دنیا سے کفر و شرک کی کثافتوں کو دور کیا تو بیٹی کساء اوڑھ کر طہارتوں کا مرکز بن گئیں،والد گرامی اگرآگ اور خون کے دریا عبور کرکے انسانیت کی نجات کا لازوال چارٹر اسلام دنیا میں لائے تو بیٹی نے بابا کے لائے ہوئے دین کے تحفظ کی خاطر ایسی اولاد پروان چڑھائی جو قیامت تک کربلائیں بسا کر دین کا حصار بن گئی۔اسلام نے عورتوں کو استحصال سے نجات دلانے اور ان کی منزلت بتانے کیلئے دختر رسول کریم ؐخاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓکا انتخاب کیا ،اس قدر منزلت تھی حضرت فاطمہ زہرا کی کہ تمام انسانیت کے تاجدار اور انبیاء و رسل کیے سردار نبی کریم کی زندگی کی بہار بن گئیں کفار کے چہرے بیٹی کی خبر سن کر سیاہ ہوتے تو نبی کریم ؐکا چہرہ کھل اٹھتا، نبی کریمؐ مدینہ سے باہر جاتے تو سب سے آخر میں بیٹی سے ملتے اور واپس آکر سب سے پہلے بیٹی فاطمہ ؓسے ملتے۔ دنیا کی نسل بیٹوں سے چلتی تھی تو نبی کریم ؐنے اپنی نسل کا ذریعہ اپنی بیٹی کو قرار دیا، کفار کے مقطوع النسل ہونے کے طعنوں کا جواب حضرت فاطمہ زہرا بنیں۔حضرت جابر ابن عبد اللہ انصاری روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا’’ہر عورت کی اولاد کا نسب اس کے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے،میں ہی ان کا نسب ہوں اور میں ہی ان کا ولی ہوں‘‘حضرت عمرخطاب ؓسے یہ بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے میرے نسب (اولاد فاطمہ)اور رشتہ کے (حاکم المستدرک،طبرانی المعجم الکبیر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی)نبی کریمؐ نے صرف دنیا میں ہی فاطمہؓ کو اپنی جگہ عنایت نہیں کی قیامت کے دن بھی نبیؐ کی سواری پر فاطمہ زہرا ؓسوار ہوں گی۔حضرت بریدہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ؓنے عرض کیا’’یا رسول اللہؐ آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار ہوکر قیامت کے روز گزریں گے؟تو آپ ؐنے فرمایا میں اس براق پر سوار ہوں گا جو نبیوں میں سے خصوصی طور پر مجھے عطا ہوگامیری سواری عضباء پر میری بیٹی فاطمہ سوار ہوگی‘‘(ابن عساکر،تاریخ دمشق الکبیر،کنز العمال)
ام المومنین حضرت عائشہ ؓوحضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ روزقیامت عرش کی گہرائیوں سے ایک ندا دینے والا آواز دے گا۔ اے محشر والو! اپنے سروں کو جھکا لو اور اپنی نگاہیں نیچی کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد مصطفی ؐگزر جائیں۔پس فاطمہ زہراؓ گزر جائیں گی اور آپ کے ساتھ چمکتی بجلیوں کی طرح ستر ہزار خادمائیں ہوں گی۔(فضائل الصحابہ احمد بن حنبل،کنزالعمال،محب طبری،تذکرہ الخواص ابن جوزی)یہی روایت حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی ہے۔(خطیب بغدادی،محب طبری)
کتب تاریخ نے لکھا کہ بابا کی جدائی میں حضرت فاطمہ زہرا ؓاتنا گریہ کرتیں کہ مدینہ کے درو دیوار گریہ کرنے لگتے۔معجم الکبیر میں رقم ہے کہ جب حضور ؐ
کی تدفین مکمل ہوئی تو سیدہ فاطمہؓنے حضرت علیؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپکے دلوں نے کیسے گوارا کر لیا کہ رسول اللہ ؐپر مٹی ڈالو؟ بی بی ایسا نوحہ پڑہتیں کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی، اور یہ کہتی جاتی تھیں: اے ابا جان! اب جبریل کی آمد کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا ہے جو آسمان سے وحی لے کر اترتے تھے۔(طبرانی)
جب حضرت فاطمہؓ آقائے دوجہاں ؐکے مزارِ اَقدس پر حاضر ہوتیں تو فریاد کرتی تھ اورر حضورؐ کی یاد میں رو رو کر یہ اَشعار پڑھتیں:جس شخص نے آپؐکے مزارِ اَقدس کی خاک کو سونگھ لیا ہے اسے زندگی میں کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہیں۔ آپ ؐکے وِصال کی وجہ سے مجھ پر جتنے عظیم مصائب آئے ہیں اگر وہ دنوں پر اترتے تو وہ راتوں میں بدل جاتے۔(ذھبی، روح المعانی آلوسی)
الخصال میں حضرت امام جعفر صادقؓ سے منقول ہے کہ’’پانچ افراد سب سے زیادہ روئے اور وہ یہ ہیں: آدم ؑ، یعقوبؑ، یوسف ؑ، فاطمہ بنت محمدؐ، علی بن الحسین زین العابدین ؓ‘‘۔
حضرت فاطمہ زہرا ؓ نبی کریم ؐکی قمیص سونگھتیں اورگریہ کرتیں بحار الانوار میں روایت ہے کہ جب پیغمبرؐوفات پاگئے تو موذن رسول ؐحضرت بلال ؓنے اذان دینی بند کردی تھی ایک دن جناب فاطمہ ؓنے انہیں پیغام بھیجا کہ میری خواہش ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے موذن کی اذان سنوں بلالؓ نے جناب فاطمہؓکے حکم پر اذان دینی شروع کی اور اللہ اکبر کہا، جناب فاطمہؓکو اپنے باپ کے زمانے کی یا آگئی اور رونے پر قابو نہ پاسکیں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ کہا تو جناب فاطمہؓنے باپ کے نام سننے پر ایک چیخ ماری اور غش کرگئیں۔(بحار الانوار)
پیغمبر اسلام ؐکی رحلت کے بعد کسی نے حضرت زہرا ؐ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جب آپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں تو بے حد مغموم و فکر مند تھیں حضرت اسماء بنتِ عمیس ؓنے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں لگتاکہ جب عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قدوقامت نظر اتا ہے. اسماؓء نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو۔ اسکے بعد انھوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پرمسکرا دیں اور پیغمبر کے بعدیہ پہلا موقع تھا کہ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلی خاتون جس کی میت تابوت میں اٹھی وہ حضرت فاطمہ زہرا ؓتھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا ؓکے خواتین کے پردے اور حجاب کو کس قدر اہمیت دیتی تھیں۔حضرت فاطمہ زہرا کا فرمان ہے کہ بہترین عورت وہ ہے کہ جس کی آواز نامحرم نہ سنے اور وہ بھی کسی نامحرم کی آواز نہ سنے۔