معاشرے کے حالات دیکھتے ہوئے دل عجیب بے چینی کا شکار رہنے لگا ہے ۔ہر طرف وائرس ،وائرس کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔سوشل میڈیا پر اس وائرس کے بارے میں خطرناک معلومات سے لے کر مزاحیہ گفتگو اور ویڈیوز بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ایک خوفناک منظر اور بھی ہے ۔ابھی کل ہی کی بات ہے ۔گھر میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پرمسلسل کرونا کے بارے میںتکلیف دہ خبروں نے جو فضاقائم کررکھی ہے اس سے گھبرا کر میںاپنے گھر( عسکری 10)، سے باہر نکل کر فٹ پاتھ پر جا بیٹھی۔سڑک پر خال خال کاریں اور موٹر سائیکلیں ویرانی میں کمی کا سامان کررہی تھیں۔ادھر فٹ پاتھ پہ کچھ فاصلے پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں مزدور اور گھروں میں کام کرنے والی خادمائیں اور بچیاں، شامل تھیں۔شاید یہ سب قریب کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ۔اتنے میں ایک کار جو مڑنے کیلئے آہستہ ہوئی ۔تو تین چار مرد اورعورتیں جنھو ں نے گود میں شیرخوار بچے اٹھا رکھے تھے ،خیرات کی امید پر کار کی طرف بڑھے۔ایک نے ہاتھ جوڑ رکھے تھے ،ایک نے ہاتھ اٹھا کر سلام کیا ۔باجی جی رات سے کچھ نہیں کھایا۔ اتنے لوگوں کو دیکھ کر خاتون جو کار ڈرائیو کررہی تھی، گھبرا کے اس نے گاڑی کی رفتارایک دم بڑھا دی اور ان ضرورتمندوں کے چہروں پر مایوسی چھا گئی ۔میں اپنی جگہ سے اٹھی اور تھوڑی دیر بعد میں ان کے درمیان تھی ۔وہ ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد تھے۔جن کے پاس کل سے راشن ختم ہوگیا تھا۔میںنے حکومت پاکستان کے احساس پروگرام کے بارے میں بتایا۔تو انھوںنے بتایا کہ ان کی شرائط پر پورا اترنے کیلئے بھی ہمیں پیسے چاہئیں۔ میرے پاس سوائے کف افسوس ملنے اور دل جلانے کے، اور کچھ نہیں تھا۔میںانھیں ان کے حال پر چھوڑ، مال آف لاہور کی طرف چل پڑی۔اسی اثنا میں ایک لینڈ کروزر اشارے پر رکی ۔دیکھتی ہوں کہ دو لڑکے گاڑی کی طرف لپکے اور ڈرایئور والے شیشے پر ہاتھ مارنے لگے ۔ڈرائیور نے گاڑی اشارے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوڑانے میں عافیت سمجھی۔ گاڑی میں کون لوگ تھے ۔کالے شیشے ہونے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے سوچا ؛ مزدور کے پاس مزدوری نہیں ،مالک کے پاس آمدنی نہیں ،چورکی چوری نہیں ،فقیرکی فقیری نہیں ۔ سفیدی پوشی کا بھرم نہیں زندگی ساکت ہوکر رہ گئی ہے ۔یااللہ کیا ہونے والا ہے ! اس فرصتوں کے اداس موسم میں جب ہر طرف کرونا ، کرونا کا شور اور خبریں ؛ کرونا نے آج اتنے شکار کیے،اتنے بچ گئے، اتنے قرنطینہ میں اپنی زندگی بچانے کی جدوجہد میں گرفتار ہیں ۔لاک ڈائون کی مہم کے حق اور بطلان میں دلائل اور بیانات ،حکومتی اور اپوزیشن کی بیاناتی جنگ اورقومی اداروں کی لاک ڈائون کروانے کی کوششوں کی رپورٹ۔ان سب نے مل کر مایوس کن ماحول پیداکردیا ہے ۔غور طلب ہے کہ جو شخص غربت سے تنگ آ کر اپنے لخت ِ جگر کو بیچ سکتا ہے ۔تو کسی اور لخت جگر کو بیچنے میں بھی کوئی امر مانع نہیں۔اسی طرح جواپنے گردے بیچ سکتا ہے۔وہ اپنی بقا کیلئے ،اپنے گھرانے کی فلاح کیلئے کیا کسی کا گردہ نہیں نکال سکتا۔بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا سکتاہے اور جب وہ بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا سکتا ہے تو سوچئے! وہ ایک وقت کی روٹی کے لیے سڑکو ں پر نہیں نکلے گا۔لوگوں کی گاڑیوں پر نہیں جھپٹے گا اور کارخانوں اورفیکٹریوں کو آگ نہیں لگادے گا۔ بقول اقبال :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ ٔ گندم کو جلا دو
سنتے ہیں کہ کورونا کا یہ سلسلہ تادیر چلے گا ۔ لاک ڈائون اور معیشت کا پہیہ جام ۔کیا ہو گا؟؟۔یورپ میں توکورونا سے گھبرائے ہووں کی خودکشیوں کی خبریں آرہی ہیں ۔مگر یہاں بھی حالات خاکم بدہن، فاقہ کشی کے بعد خودکشی، انارکی اور لوٹ مار کی طرف نہ چلی جائیں ۔لوگ بجلی گیس پانی کے بل نہیں دے سکیں گے ۔سول نافرمانی ہوگی ۔ہر طرف بے روزگاری کا دور دورہ ہونے والا ہے ۔ روزینہ نہ ملنے پر غریب کا چولھا کیسے جلے گا۔لوگوں کو ملازمتیں نہ ملنے بلکہ جو برسر روزگار تھے ان کی ملازمتیں ختم ہوجانے کے بعد انھیں کس بھٹی میں جھونکا جائے گا۔ کیا ہوگا؟یہ اس وقت کا اہم سوال ہے ،مگر اس کا جواب اپوزیشن کی روایتی تنقید اور حکومتی روایتی نااہلی کی صورت میں مل رہا ہے ۔جب کشتی میں چھید کی وجہ سے پانی بھر رہا ہو تو یہ نہیں تحقیق کی جاتی کہ کشتی میں چھید کس نے کیا بلکہ چھید کو بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کرونا نے بلامذہب ،رنگ و نسل اور سیاسی وابستگیوں سے ماورا پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے ۔اس کا مقابلہ اعتراضات اور الزامات سے ممکن نہیںہے ۔اس کیلئے سب کو سرجوڑ کر سوچنا اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر اقدامات کرنا ہونگے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024