امن او ررواداری کیلئے ہم آہنگی اور سماجی کلچر کو فروغ دینا ہوگا:مقررین
لاہور)نیوز رپورٹر( طالب علموں میں امن او ررواداری کے فروغ کے لیے ہمیں سماجی ہم آہنگی اور سماجی کلچر کے فروغ کو آگے بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ سماجی ہم آہنگی کی بنیاد پر ہی ہم سب کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتے ہیں ۔جب تک تعلیمی اداروں میں ہم تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ سماجی ہم آہنگی , رواداری اور برداشت کے کلچر کو فروغ نہیں دیں گے امن اور ترقی کا ایجنڈا آگے نہیں بڑھ سکتا۔نوجوان طالب علم عملی طو رپر امن کے سفیر بن کر معاشرے کی خدمت کرسکتے ہیں ۔اگر پاکستانی معاشرے کو پر امن بنانا ہے تو اس میں طالب علموں کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا , کیونکہ تعلیم اور تربیت کا باہمی تعلق ہی معاشرے کوپرامن ماحول میں تبدیل کرتا ہے ۔ ذہن سازی اور شعورکی تبدیلی کا عمل تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس عمل میں استاد اور طالبات دونوں کو مل کر رواداری کی بحث کو آگے بڑھانا ہوگا ۔ کیونکہ پاکستان کو آج امن کی بہت ضرورت ہے او ردنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ایک پرامن او رمحفوظ ملک ہے ۔ان خیالات کا اظہار ادارہ برائے جمہوری تعلیم )آیڈیا(اور یونیورسٹی آف ایجوکشن کے باہمی اشتراک سے ہونے والے مکالمہ بعنوان ’’ سماجی ہم آہنگی اور امن کا ایجنڈا‘‘میں مختلف تعلیمی او ردیگر ماہرین نے کیا ۔مقررین میں معروف تجزیہ نگار دلاور چوہدری , سلمان عابد, علی عباس, ڈاکٹر ارشد, ڈاکٹر عمرانہ مشتاق, اعظم ملک , عاصمہ عمر شامل تھے ۔دلاور چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو نظرانداز کرکے کوئی بھی امن کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ ہمیں نوجوان نسل کو ملک کی تعمیر و ترقی کے عمل میں شامل کرنا ہوگا او ران میں یہ سوچ اجاگر کرنا ہوگی کہ یہ ملک ان کی شمولیت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ پاکستان جو عملی طور پر امن کی ایک بڑی جنگ لڑرہا ہے اس میں ہمیںمعاشرے کے تمام طبقات کو اس تحریک کا حصہ بنانا ہوگا۔ لوگوں میں یہ سوچ اجاگر کرنا ہوگی کہ ہمیں مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینا ہے اور طاقت کے استعمال کی نفی کرنا ہے ۔ڈاکٹر عمرانہ مشاق نے کہا کہ جب تک ہم معاشرے اور تعلیمی اداروں میں سماجی کلچر اور سماجی سرگرمیوں کو فروغ نہیں دیں گے سماجی اہم اہنگی کا عمل مضبوط نہیں ہوسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ خاص طور پر لڑکیوں کو امن او ررواداری کی تحریک کا حصہ بننا ہوگا اور ثابت کرنا ہوگا کہ لڑکیاںبھی امن کی تحریک کاحصہ ہیں او ران ہی کی مدد سے عورتوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ بھی دینا ہوگا ۔اعظم ملک نے کہا کہ اصل بات طالب علموں کو تعلیمی اداروں میں سماجی سطح پر زیادہ سے زیادہ مواقع دینے کی ضرورت ہے کیونکہ غیر نصابی سرگرمیاں نوجوانوں میں سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں موجود مختلف طرز کی سوسائٹیاں ایسی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہیں جو باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے او رایک دوسرے کے درمیان باہمی اختلافات کے خاتمہ کا بھی سبب بن سکتا ہے ۔عاصمہ عمر نے کہا کہ ہمیں معاشرے جو سیاسی , سماجی تعصبات ہیں ان کو ختم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنی حقیقی تعلیم کو بنیاد بنائیں گے او رتعلیم میں تربیت کے عمل میں اس نکتہ پر زور دیں گے کہ لڑکیوں کی ترقی بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا لڑکوں کی ۔سلمان عابد نے کہا کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ پالیسیاں , قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے نظام کو موثر بنانا ہوگا ۔ طالب علموں کو سمجھنا ہوگا کہ ان کی شمولیت کے بغیر یہ ملک ترقی نہیں کرسکے گا او ران کو خود آگے بڑھ کر امن کی تحریک کا حصہ بننا ہوگا ۔علی عباس نے کہا کہ نئی نسل ہمارا مستقبل ہے او رہمیں زیادہ سے زیادہ اس نسل پر سیاسی , سماجی او رمالی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ کیونکہ جب تک ہم نئی نسل کے مسائل کو سنجیدگی سے نہیں سمجھیں گے او راس کے حل کے لیے کوئی موثر اور مضبوط حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی اس وقت تک امن کا ایجنڈا تضادات کا شکار رہے گا۔