بعض اوقات ماتحت عدالتوں کے فیصلے اصولوں اور قوانین کے مطابق نہیں ہوتے: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے کہا ہے کہ سکھانے والوں کو بھی سیکھنا پڑتا ہے اور یہ عمل تادمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ دنیا جدید ٹیکنالوجی اور قوانین سے روشناس ہورہی ہے جس کا ہر خطے پر اثر ہورہا ہے۔ آپ جو کچھ سیکھیں گے وہ کل جوڈیشل افسران کو ٹرانسفر کریں گے اور پھر اس کے اثرات عام سائلین تک جائیں گے۔ اس ٹریننگ کا بالواسطہ تعلق عام سائلین کو معیاری انصاف کی فراہمی سے ہے۔ چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ٹریننگ آف ٹرینرز پروگرام کی افتتاحی تقریب سے کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انسان کا وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں، معاشرہ تخلیق ہونے کے بعد انصاف اور منصف کی ضرورت تھی اور ابتدائی معاشرے نے اپنی ضرورت کے مطابق کسی ایسے شخص کو منصف نامزد کیا جس کی ایمانداری پر سب کو اعتمادتھا۔آج یہ ادارہ مختلف قوانین کے طابع ہے اور منصف کوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ قانون کے علم پر دسترس رکھنا منصف کا بنیادی فرض ہے، قانون کو سمجھے بغیر وہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ بعض اوقات ضلعی عدلیہ کے ججز کی جانب سے جاری کئے جانے والے فیصلہ جات سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹس کے وضع کردہ اصولوں اور قوانین کے مطابق نہیں ہوتے۔جوڈیشل افسروں کو دیکھنا ہوگا کہ آیا جو قوانین سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس نے سیٹ کئے ہیں آپ اس کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں یا نہیں۔قانون کے مطابق کئے جانے والے ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کو ہم معتبر سمجھتے ہیں اور وہ سپریم کورٹ تک بھی تبدیل نہیں ہوتے۔بحیثیت اس صوبائی ادارے کے سربراہ کے انہیں اپنے تمام جوڈیشل آفیسرز پر مکمل اعتماد ہے ۔جوڈیشل افسروں کی ضروریات اور تقاضے انکے علم میں ہیں، انہوں نے وعدہ کیا کہ جوڈیشل افسروں کی عزت نفس کا تحفظ ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ جوڈیشل افسران خصوصاََ فی میل ججز کی سہولت ، تحفظ اور تمام مسائل کا حل متعلقہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر لازم ہے۔ جوڈیشل افسران اپنے اندر سے سیکھنے سے متعلق ہچکچاہٹ ختم کریں، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں واضح فرق علم کی طلب اور قانون کی عملداری ہے۔