حکومت ’’اچھے‘‘ کا کریڈٹ ضرور لے‘ مسائل کی ذمہ داری بھی قبول کرے
معاشی بحران اور مہنگائی کے ذمہ دار ماضی کے حکمران‘ وزراء کا اپوزیشن کو پانچ سال انتظار کا مشورہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ حکومت گرانا مسائل کا حل ہوتا تو کوئی بھی حکومت نہیں چل سکتی، اپوزیشن اپنی باری کیلئے اگلے 5سال انتظار کرے۔ملتان میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران ملک کے معاشی بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اسد عمر ہو یا کوئی اور چٹکی بجا کر مسائل حل نہیں کرسکتا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوئی تو تجارتی خسارہ انتہائی حدوں کو چھو رہا تھا، مالیاتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا تھا ، ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری بے تحاشہ حد تک گر چکی تھی، قرض میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ 1948 سے لے کر 2008 تک سابقہ حکومتوں نے 6ہزار ارب کا قرض اکٹھا کیا اور پھر اگلے 10سال میں ملک مجموعی طور پر 30 ہزار ارب کا مقروض ہو گیا، 24ہزار ارب کے اضافے کا ذمے دار کون ہے؟ تحریک انصاف کی 8ماہ کی حکومت کو مسائل کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا‘۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر فریز کیا ہوا تھا اور روپے کو استحکام دینے کیلئے وہ ڈالر مارکیٹ میں پھینکتے تھے، جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو فاریکس ریزرو صرف 2ہفتے کے رہ چکے تھے اور اس بگڑی ہوئی صورتحال سے تحریک انصاف کو دوچار ہونا پڑا اور ہم انہیں درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت گرانا مسئلے کا حل ہوتا تو کوئی حکومت چل نہیں سکتی تھی، 2018 کے انتخابات میں لوگوں نے اپنی پسند کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دیا۔وزیر خارجہ نے اپوزیشن کو پیغام دیا کہ آپ 5سال انتظار کیجیے جیسے پچھلی اپوزیشن کو 5سال انتظار کرنا پڑا تھا، 5 سال بعد ہم اپنی کارکردگی عوام کے سامنے رکھیں گے اور پھر عوام فیصلہ کرینگے، عوام کا ہر فیصلہ ہم کھلے دل سے قبول کرینگے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) ایک خود مختار ادارہ ہے، وہ حکومت کے تابع نہیں ہے، ہم اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں نہ دبائو میں لا سکتے ہیں اور وہ ہماری مرضی کے فیصلے بھی نہیں کریگا۔ حکومت توقع رکھتی ہے کہ نیب ملک سے کرپشن کا خاتمہ کریگا۔انہوں نے کہا کہ نیب سے قوم توقع کرتی ہے کہ وہ بغیر رعایت اور دبائو کے کرپشن فری پاکستان کی منزل کی جانب بڑھتا چلا جائیگا۔دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی اور ڈالر کے اوپر جانے کے ذمہ دار شریف اور زرداری خاندان ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں نہ جمہوریت خطرے میں ہے اور نہ ہی اسلام خطرے میں ہے، خطرے میں ڈاکو ہیں، کچھ جیل میں ہیں اور کچھ جیل سے باہر ہیں۔ پاکستان کے ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ کا قلمدان انکے ماضی کے اس فیلڈ میں تجربے کے باعث سونپا۔ شاہ محمود قریشی نے اپنی کارکردگی سے خود کو خارجہ میدان میں منجھا ہوا کھلاڑی ثابت کیا۔ حکومت نے آنے کے چند ہفتے بعد ان کا اقوام متحدہ میں خطاب قوم کی امنگوں کا ترجمان اور جرأت مندانہ تھا۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے رکھنے کا حق ادا کرتے ہوئے بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ حالیہ دنوں میں بھارتی جارحانہ رویے خصوصی طور پر اسکی طرف سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور اسکے دو طیارے مار گرائے جانے کے بعد بھارت انگاروں پر لوٹتا نظر آرہا تھا۔ اسکے الزامات میں اضافہ ہورہا تھا۔ جنگ کے بادل منڈلاتے نظر آتے تھے‘ ان حالات میں شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں وزارت خارجہ نے صورتحال کو بڑی دانش مندی سے ٹیکل کیا تاآنکہ جنگ کے خطرات اب ٹلتے نظر آرہے ہیں۔ گو اگلے ایک دو روز نازک ضرور ہیں کیونکہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مودی سرکار کی طرف سے کوئی ایڈونچر ہو سکتا ہے مگر پاک افواج کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں جبکہ پاک فوج اور سیاسی قیادت ایک پیج پر اور قوم انکے شانہ بشانہ ہے۔ خارجہ امور کے حوالے سے سب اچھا کا قوی تاثر قائم ہوا ہے مگر حکومت کے دیگر شعبوں پر کئی سوالیہ نشانات موجود ہیں۔
تحریک انصاف نے اکتوبر 2011ء میں لاہور کے جلسہ عام میں پیپلزپارٹی کی مرکزی اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انکی بدترین کرپشن اور احتساب کی بات کی۔ غربت اور مہنگائی کے خاتمے کو ایجنڈے کا حصہ بنایا۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کو توقعات سے زیادہ پذیرائی ملی۔ اس بل بوتے پر 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کی امید لگالی مگر عوام نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں فیصلہ دیا اگلے پانچ سال تحریک انصاف نے اسکی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے گزار دیئے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ تحریک انصاف کی قربتیں ضرور نظر آئیں مگر زیادہ تر دوریاں ہی رہیں۔ پاناما کیس کے دوران پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مابین مفاہمت موجود رہی۔ کڑے احتساب کے ساتھ پی ٹی آئی مہنگائی‘ بے روزگاری کے خاتمے کا برملا اعلان کرتی رہی۔ جہاں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کو عوام پر ستم قرار دیا جاتا وہیں پٹرولیم مصنوعات پر دگنا ٹیکسوں کو ظلم قرار دیکر پٹرولیم کی قیمتیں نصف لانے کا باربار اعلان کیا گیا۔ عوام نے ان اعلانات پر اعتبار کرتے ہوئے 2018ء کے انتخابات میں مینڈیٹ تحریک انصاف کی جھولی میں ڈال دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو زبوں حال معیشت ورثے میں ملی۔ اندھا دھند قرض چکانے کی سوچ سے بے نیاز ہو کر لئے گئے۔ تحریک انصاف نے واضح کیا تھا کہ اس کے پاس ہر شعبے کو بحران سے نکالنے کا پلان موجود ہے۔ 2011ء سے 2018ء کے انتخابات تک اسکے سامنے تمام حقائق موجود تھے۔ حکومت میں آئے تو کہا گیا کہ معیشت کی خرابی کا اندازہ تھا مگر اس قدر خراب ہوگی اسکی حقیقت حکومت میں آنے کے بعد سامنے آئی یعنی معاشی حالت تمام اندازوں سے بڑھ کر بدتر تھی۔ یہ بھی سچ ہے کہ حکومت میں آتے ہی پی ٹی آئی کو ادائیگیوں کا سامنا تھا جس میں ناکامی پر معیشت کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا۔ یہ حکومت کیلئے بڑی پریشانی تھی مگر دوست ممالک نے بیل آئوٹ پیکیجز سے وزیر خزانہ کے بقول معیشت مضبوط خطوط پر استوار ہونے لگی مگر عوام جس ریلیف کی توقع کررہے تھے‘ وہ ان سے کوسوں دور ہے۔
عام آدمی معیشت کی باریکیوں کو نہیں سمجھتا‘ اسے سب سے پہلے اپنی روٹی روزی کی ضرورت پھر اپنی اور خاندان کی صحت اور تعلیم کی فکر ہوتی ہے جو حکومتی کارکردگی سے بے چینی اور تشویش میں بدل رہی ہے۔ روپے کی قیمت میں ہوش گم کردینے والی کمی‘ بجلی اور پٹرولیم کے نرخوں میں پے در پے اضافے نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا۔ مہنگائی کے طوفان کے تھپیڑے عوام کو حکومت سے بدظن کرنے کیلئے کافی ہیں۔ اپوزیشن آج کی ہو یا ماضی کے کسی بھی دور کی‘ بشرطیکہ فرینڈلی نہ ہو تو وہ حکومت کو ایک بھی دن نہ چلنے دے۔ آج کی اپوزیشن تو ویسے ہی منتشر ہے‘ حکومت کے بارے میں شدید تحفظات کے باوجود متحد ہوتی نظر نہیں آتی مگر عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بہت کچھ کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی دوسری طرف ’’دو روٹیاں نہ کھائیں ایک کھالیں‘‘ جیسے مشورے دینا عوام کی بے بسی کا مذاق اڑانا ہے۔ فرانس کی ملکہ نے بھی بھوکے عوام کو روٹی نہ ملنے پر کیک کھانے کا مشورہ دیا اور اسکے انجام کی تاریخ گواہ ہے۔
ماضی کی حکومتوں نے معیشت کو مصنوعی طور پر سہارا دیئے رکھا آپ حقیقی طور پر معیشت کو سہارا دیں جو چین‘ سعودی اور یواے ای کے بھاری پیکیجز کے حصول کے بعد عین ممکن ہے۔ بلاشبہ حکومت گرانا مسائل کا حل نہیں مگر مسائل کے حل کیلئے حکومت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ حکومت کو اپوزیشن نے تو مضبوط نہیں کرنا البتہ عوام ضرور حکومت کی مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں۔ حکومت کی مضبوطی کیلئے تحریک انصاف کو عوام کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ عوام کا اعتماد مہنگائی کے طوفانوں سے نکال کر ہی جیتا جا سکتا ہے۔ عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے تو پانچ سال پورے کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں ہو سکتا جبکہ عوامی اعتماد کے بل بوتے پر دوسری اور تیسری ٹرم بھی حصے میں آسکتی ہے۔ اسکی ایک مثال خیبر پی کے میں تحریک انصاف کا غیرروایتی طور پر دوسری بار اور وہ بھی دوتہائی اکثریت سے جیتنا ہے۔ حکومت کو اب تمام خرابیوں کا ذمہ دار پیشروئوں کو قرار دینے کی روایت اور رویے پر مٹی ڈالنی چاہیے جو خرابیوں کے ذمہ دار تھے ان کو عوام نے مسترد کرکے آپ پر اعتبار کیا۔ آپ اچھے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو مسائل اور بحرانوں کی ذمہ داری بھی کھلے دل سے قبول کرنے کا حوصلہ دکھائیں۔
احتساب کے حوالے سے حکومت کمپرومائز نہیں کررہی تو سنجیدہ حلقے اسکے حامی ہیں۔ جنہوں نے ملک و قوم کے وسائل کو لوٹا ان سے نرمی اور رورعایت کی ضرورت نہیں۔ اس حوالے سے حکومت کا عزم و ارادہ قابل داد ہے۔