منگل ‘ 10 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 16؍ اپریل 2019ء
بھارت نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ نغمے کی دھن چرالی۔
پاک فوج کی تو ہر ادا نرالی ہے۔ دشمن کی طرف سے اپنے نغمے کی دھن چوری کرنے پر بھی ضدی پڑوسن کی طرح منہ پھلا کر ناراض نہیں ہوتی جواں مردوں کی طرح کھلے دل سے انہیں شاباش دیتے ہوئے سچائی تسلیم کرنے کا پیغام بھی دیتی ہے۔ اب بھارتی رکن اسمبلی جن کا تعلق انتہاء پسند بی جے پی یعنی حکمران جماعت سے ہے‘ اس نے پاک فوج کے نغمے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کی مکمل دھن نہایت بے شرمی سے چوری کرکے اپنی بے سری آواز میں بھارت کیلئے ایک نغمہ تیار کروایا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ اب وہ پاکستان کی اچھی باتوں کی بھی نقل کرتے ہوئے ان کو اپنائیں اور سچ بولیں۔ ظاہر ہے یہ کام بھارت والوں کے بس میں نہیں نہ ہی وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ جھوٹ‘ فریب‘ مکاری انکی سرشت میں شامل ہے۔ اگر بھارت پاکستان کی طرح دوستی‘ امن اور خوشحالی کی راہ پر قدم بڑھانے کی خواہش ہی کرے تو برصغیر میں تعمیر و ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ مگر بھارتی حکمران تو خواہ وہ کوئی بھی ہوں‘ اٹوٹ انگ کی بے سری تال پر کبھی سرجیکل سٹرائیک اور کبھی سبق سکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کا جواب بھی انہیں خود کشمیر میں اور سرحدوں پر کھل کر ملتا ہے۔ مگر ان عقل کے اندھوں کے ہوش ٹھکانے پر نہیں آتے۔ پہلے بالاکوٹ کے نام پر یہ دونمبری کرتے پکڑے گئے اب پاکستانی نغمے کی دھن چوری کرنے پر انکے خلاف مقدمہ تو بنتا ہی ہے نہ کہ یہ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
٭…٭…٭
اپوزیشن کا قومی اسمبلی اور سینٹ میں مہنگائی کیخلاف احتجاج کا فیصلہ
شکر ہے کسی کو تو بے یارومددگار عوام کا خیال آہی گیا۔ یہ بے زبان آئی ایم ایف سے معاہدہ قرار پانے سے قبل ہی مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیئے گئے ہیں۔ غریبوں کی ساری بھاگ دوڑ روزی روٹی کیلئے ہوتی ہے۔ وہ بھی اب مہنگی ہونے سے ان کے دسترخوان مزید سکڑ جائینگے۔ سبزیاں‘ پھل‘ دالیں پہلے ہی غریبوں کے دسترخوانوں سے روٹھی ہوئی ہیں‘ اب روٹی بھی ناراض ہو رہی ہے۔ غریب بے چارے…؎
کھائیں تو کھائیں گے کیا
ملتی نہیں روٹی بھی سستی یہاں
کا ورد کرتے ہوئے حکمرانوں کے حق میں جو کلمات خیر ادا کررہے ہیں‘ ان کو نقل کرنے کا ہم میں یارا نہیں۔ اس مسئلہ پر ہم سکوت اختیار کرتے ہیں‘ پنجاب میں وزیراعظم کے مشیر اکرم چودھری آئے روز کبھی سبزی منڈی‘ کبھی اتوار بازار پر چھاپے مارتے نظر آتے ہیں مگر منافع خوروں کو لگتا ہے حکومت کی طرف سے لوٹ مار کی کھلی اجازت ہے اس لئے وہ ان چھاپوں سے بھی خوفزدہ نہیں۔ سرکاری ریٹ پر کوئی بھی چیز کہیں بھی دستیاب نہیں۔ البتہ مارکیٹ کمیٹی والے سب اچھا کی رپورٹ دیتے پھرتے ہیں۔ ابھی تو ماہ رمضان کچھ دنوں کی دوری پر ہے۔ لگتا ہے غریبوں کو ابھی سے رمضان میں اٹھنے والے مہنگائی کے طوفان سے آشنا کرنے کیلئے یہ مہنگائی کی پریکٹس کرائی جارہی ہے۔ دیکھنا ہے کہ اب قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے اشرافیہ طبقے کے نمائندہ وہاں کون سا تیر چلالیں گے۔ یہ سب ارکان اسمبلی اور سینٹ اس مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہیں جنہیں مہنگائی تو دور کی بات آٹے دال کا بھائو بھی معلوم نہیں۔
٭…٭…٭
کراچی بورڈ نے انٹر کے امتحانات کی میڈیا کوریج پر پابندی لگا دی۔
کراچی میں ہی نہیں پورے سندھ میں انٹر کے امتحانات میں پچھلی بار جو کچھ ہوا‘ سب نے دیکھا۔ کھلے عام نقل تو عام محاورہ بن گیا ہے ہمارے امتحانی نظام پر طنز کے حوالے سے۔ مگر سندھ میں جو کچھ ہوتا ہے وہ نقل نہیں سراسر ظلم ہے زیادتی ہے‘ ان طلبہ کے ساتھ جو ایمانداری سے پڑھتے ہیں اور امتحان میں شرکت کرتے ہیں۔ مگر یہ غنڈہ عناصر اور نقل مافیا مل کر انکی حق تلفی یوں کرتا ہے۔ سارا پرچہ موبائل فونز یا گیس پیپر سامنے رکھ کر حل کرتا ہے۔ اب چیک کرنے والوں کو کیا معلوم کہ یہ سارے جہلا اتنے عالم کیسے ہو گئے کہ پرچے مکمل حل کرنے لگ گئے ہیں۔ جن لوگوں نے پورا سال کتابوں کی شکل نہیں دیکھی جو طاقت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ تک کو دبا کر رکھتے ہیں‘ پورا امتحانی مرکز خرید لیتے ہیں۔ امتحانی مراکز کے عملے اور پولیس تک کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ ان کیلئے پھر پاس ہونا اور اچھے نمبر لینا کونسا مشکل کام رہ جاتا ہے۔ ان باتوں کی وجہ سے گزشتہ برس وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ نے خود ایکشن لیا تھا مگربے سود رہا۔ اب محکمہ تعلیم والوں نے عقل استعمال کرتے ہوئے کراچی میں امتحانی مراکز کی میڈیا کوریج رکوا دی ہے تاکہ وہاں جو کچھ ہو‘ اس کا میڈیا پر چرچا نہ ہوسکے۔ عوام وہ سب کچھ نہ دیکھ سکیں جو امتحانی مراکز میں ہوتا ہے۔ مگر اس طرح کی پابندیاں لگا کر وہ تعلیم کی خدمت کررہے ہیں یا نقل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اس کا فیصلہ اب وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ امتحانی نظام کو اس طرح نقل مافیا کے ہاتھوں یر غمال رہنے دینا چاہیں گے یا ان سے بچائیں گے۔
٭…٭…٭
مودی الیکشن ہارنے کے بعد چائے اور پکوڑے بیچیں گے‘ بدرالدین۔
آسام کے مسلم رہنماء کی طرف سے مودی کے بارے میں یہ پیشگوئی کب پوری ہوتی ہے‘ اس میں بہت تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ مسلم رہنما نے اپنے بیان میں کھل کر کہا ہے کہ وہ ہر اس جماعت سے تعاون کرینگے جو مودی کو باہر نکال پھینکنے کی کوش کریگی۔ یوں انہوں نے مسلمانوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ مودی کے مقابلے میں ہر اس جماعت کو ووٹ دیں جو مودی کا بوریا بستر گول کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اب اگر واقعی مودی ہار جاتے ہیں تو ان کیلئے بھی بدرالدین صاحب نے مستقبل کا پلان سوچ رکھا ہے اور مودی جی کو بیروزگاری سے بچانے کیلئے انہوں نے مودی جی کو چائے اور پکوڑے کی دکان کھولنے کا مشورہ دیا ہے۔ اگر مودی جی چائے کی دکان کھول لیں تو یقین کریں انکی آمدنی دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کروڑوں تک پہنچ جائے گی کیونکہ انکی چائے کی بہت شہرت ہے۔ اوبامہ سے لے کر ٹرمپ تک سب ان کی چائے کے دیوانے ہیں۔ یقین نہ آئے تو تاریخ دیکھ لیں۔ انہوں نے جس امریکی صدر کو اپنے ہاتھ سے بنائی چائے پلائی وہ ان کا دیوانہ ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ اور اوبامہ کے دور میں بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے نظر آئے۔ یہ سب مودی جی کی چائے کا کمال ہے۔ امید ہے مودی جی بدرالدین صاحب کے پر سنجیدگی سے غور بھی کرینگے۔