ہم نے بھی کیا عجب مقدر پایا ہے ہر قسم کے نظام اپنا چکے ہیں ہر قسم کے آئین اور دستور کو آزما چکے ہیں لیکن ہماری تقدیر نہیں بدلی کامل 72 برس بیت چلے ہیں اور ہم ایک بار پھر بے سمت چوراہے پر کھڑے نئے نظام کی تلاش میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں فتور اور قصور نیتوں کا ہے جنہیں ہم ٹھیک کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔اس لئے سرابوں کے عذاب ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں اور نجانے کب تک بنے رہیں گے ۔
پاکستان میں ‘‘برابری’’ کے احمقانہ فلسفے کے تحت سوا بنگالی کو ایک مغربی پاکستانی کے مساوی قرار دے کر مضبوط وفاق کی بنیاد رکھی گئی قانون فطرت کو چیلنج کیا گیا پھر ون یونٹ کی تشکیل اور تخریب کا کھیل کھیلا گیا 73 کے متفقہ آئین میں پیوند کاری کاسلسلہ 40 برس سے جاری ہے جس پرممتاز قانون دان جناب حامد خان نے اپنی کتاب میں بھرپور طریقے سے روشنی ڈالی ہے۔مسئلہ صدارتی یا پارلیمانی نظام کا نہیں، مسئلہ تو ہمارے انتخاب کا ہے؟ اہلیت کے بجائے عہدے، منصب اور ذمہ داریاں اگر کسی ‘اور ‘وجہ سے تقسیم ہوں گی تو خیر نہیں شر برآمد ہوگا۔ بے جان اور منجمد چیزوں کو موردالزام ٹھہرانے سے کیا حاصل؟ اپنا اور قوم کا وقت کیوں ضائع کیاجائے؟ بغداد میں بھی ایسی ہی لاحاصل بحثیں امت کو لے ڈوبی تھیں اور ہلاکو خان نے افلاطونوں کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے تھے۔
مبینہ صدارتی نظام لانے اور پارلیمانی طرز حکومت کو لپیٹنے کے بلند و بانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔ بلاول ‘توتلی’ زبان میں لات مار کر نظام گرانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ان کے مقابل مریم بی بی بڑے سہج سبھاؤ سے پارلیمانی نظام کی بالادستی کی جنگ لڑنے کے لئے آمادۂ پیکار ہیں۔ نظام کوئی اچھا یا برا نہیں ہوتا دستور اور آئین سارے بہترین ہوتے ہیں وہ تو شاطر دماغ دانشور ہوتے ہیں جو ان کو اچھا یا برا بنادیتے ہیں ۔برطانیہ میں پارلیمان اور بادشاہت شانہ بشانہ چل رہے ہیں بھارت میں ہزار خرابیوں کے باوجود الیکشن کمشن اور اس کے نتائج پر کسی کو اشارہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ اصل معاملے نیتوں کے ہیں فرمایا آقا و مولا نے’’ عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے‘‘اور بڑی سنجیدگی سے دلائل تراشنے والے مفت میں توانائیاں ضائع نہیں کر رہے وہ دونوں ہاتھوں سے چہار اطراف ‘فن صفائی’ دکھا رہے ہیں۔بڑے بڑے دانشوروں کی باتیں، سن کر’ بیان پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ہم سادہ راستے چھوڑ کر پرپیچ پگڈنڈیوں کو کیوں ترجیح دیتے ہیں۔ کیا کسی آسیب کا سایہ ہوگیا ہے یا پھر کوئی اور منصوبہ ہے کہ پہلے سے الجھی ہوئی قوم کو مزید الجھا کر اپنا الو سیدھا کیاجائے۔
آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ملک میں پارلیمانی نظام کیا ہے اور صدارتی نظام کے کیا محاسن اور فضائل ہیں۔کس حکیم نے ہماری سیاسی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ آپ اپنی ٹیم میں وہ کچرا جمع کریں جس کے پلے کچھ نہیں، صرف باتیں، دعوے اوربیانات ہیں۔ کیا آپ کی نظر مردم شناسی سے اتنی محروم ہے کہ آپ کو کسی کے ٹیلنٹ کا بھی علم نہیں ہوسکا کہ کون کیا بیچتا ہے؟ جب میدان میں آپ کا عملی امتحان سامنے ہے اب حیلے بہانے تراشنا شیوہ مردانگی نہیں ہوا کرتا۔معاشی ابتری اور بعض دیگر بے وقوفیوں کے پہلے تو بہانے اور جواز تراشے جاتے رہے۔ اب یکا یک زورکلام اس بات پر دکھایا جارہا ہے کہ پارلیمانی نظام ناکام ہے۔ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس نظام نے قوم کو جکڑ لیا ہے۔ عمران خان خود تو اچھا آدمی ہے لیکن ٹیم بڑی گنوار ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ ہیرے جواہرات کس کی نگاہ انتخاب ہیں لیکن کیا کریں ہم سب اسی ایک کشتی میں سوار ہیں۔ غلطی، بے وقوفی، حماقت اور جہالت کے معنی جاننے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب ایسے جنگجو میدان میں خم ٹھونک کر اترے ہیں جو صدارتی نظام کے پرخچے اڑا رہے ہیں وہ نظام ابھی آیا نہیں اس کے خلاف نت نئی دلیلیں ڈھونڈڈھونڈ کر لارہے ہیں اور ثابت کررہے ہیں کہ دراصل صدارتی نظام تو ہے ہی برائیوں کا مجموعہ اور پاکستان کے وجود پر جو زخم لگے ہیں، وہ اسی نشتر کی وجہ سے ہیں۔ ایک موازنہ بھی کیاجارہا ہے کہ جب مشرقی پاکستان کا سانحہ ہوا تو یحیی خان کا صدارتی نظام ملک پر مسلط تھا۔صدر ایوب خان کے حوالے دئیے جارہے ہیں۔ پھر جنرل ضیاء الحق کے دور اور آخر میں پرویز مشرف کے صدارتی دور کی یادیں تازہ کی جارہی ہیں۔ ان کے افعال واقوال کے سہارے سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ صدارتی نظام اگر نہ ہوتا تو ملک کو یہ صدمے نہ سہنے پڑتے اور آج ہمارے دکھ اور تکلیفیں کم ہوتیں۔
ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو دنیا میں کہیں بھی جمہوریت کا کوئی معیاری مثالی ماڈل موجود نہیں۔ دنیا میں پارلیمانی نظام جمہوریت کی بھی متعدد شکلیں رائج ہیں۔ اسی طرح صدارتی انتظام کے بھی اپنے فائدے اور مسائل ہیں۔ چین کے اندر صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بھارت کے اندر پارلیمانی نظام ہے لیکن اس کا حال دیکھ لیں خود بھارت کے اندر دانشور اس کے سیکولر ازم کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہے ہیں۔ وہاں کی آبادی کی بے بسی، غربت اور مسائل پر ایک انسان کی حیثیت سے کون نہیں دکھ اور تاسف کا اظہار کرے گا۔ برطانیہ کے اندر پارلیمانی نظام موجود ہے لیکن ملکہ کی صورت میں بادشاہت کا ٹانکا بھی لگا ہوا ہے۔ سکینڈے نیویئن ممالک میں بھی ایسا ہی ماڈل نظرآتا ہے جہاں بادشاہ بھی موجود ہے لیکن پارلیمانی نظام بھی جاری ہے۔ جرمنی دیکھ لیں۔ روس دیکھ لیں۔ امریکہ دیکھ لیں۔ امریکہ میں صدارتی نظام رائج ہے لیکن وہاں حکمران ٹرمپ ہے۔ اب آپ کیا کہیں گے؟ کیا ہمیں بھی ایسا ہی کوئی ‘‘پاگل’’ صدارتی نظام کے فضائل کے ساتھ درکار ہے؟
اگر محض صدارتی نظام ہی تمام مسائل کا حل ہے تو پھر افغانستان میں صورتحال اچھی کیوں نہیں ہوگئی؟وہاں حامد کرزئی کو اربوں ڈالر کی معاونت اور امریکہ سمیت دنیا بھر کی افواج کی تائید وحمایت بھی میسر رہی لیکن افغانستان کا جو حال ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ رجب طیب اوردگان کے اپنے ذاتی کردار اور اقدامات اپنی جگہ ہیں لیکن ترکی ایک انتہاء سے دوسری انتہائ کی طرف جارہا ہے۔ حالیہ انتخابات میں جو پہلو ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ غور طلب ہیں۔
مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ نظام کے ثمربار ہونے کا ہے۔ مسئلہ امور ریاست کی احسن انداز میں انجام دہی کا ہے؟ مسئلہ اچھی حکمرانی کا ہے؟ مسئلہ معاملات کو دانشمندی اور سلیقہ شعاری سے نبھانے کا ہے۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38