منگلولوں کا بغداد پر حملہ
کچھ قومیں اور قومیتیں اس دنیا میں بے پناہ طاقت، ناقابل شکست قوت اور بہت زیادہ خون خرابے اور جنگ و جدل کی علامت رہی ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے صفحات پر ان مٹ نقوش مرتب کئے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک منگول بھی تھے انہیں تاتاری بھی کہا جاتا ہے ۔
منگول وسطی ایشیا ء کا ایک جنگجو قبیلہ تھا۔یہ قبیلہ قتل و غارت ، خون خرابے ، جنگ و جدل میں بد نام تھا۔ خون آشام ہولی کھیلنا ان کا رات دن کا کام تھا۔ یہ گروہوں کی صورت میں تقسیم رہتے تھے لیکن چنگیز خان کی قیادت میں متحد ہو گئے۔چنگیز خان کا اصل نام تموجن تھا لیکن وہ تاریخ عالم میں چنگیز خان کے نام سے مشہور ہوا اور تیرھویں صدی کے اوائل میں لوگوں نے اسے خدا کے تازیانے کے نام سے پکارا۔دنیا کی تاریخ میں شاید اس سے زیادہ سفاک اور خونریز قسم کا قبیلہ کہیں ابھرا ہوگا جیسا کہ منگولوں کا تھا۔ دیکھنے میں تو یہ سب گوشت پوست کے انسان تھے جن میں شاید انسانی جذبات بھی ہوتے ہوں گے لیکن انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہین ہوگی۔ یہ حیوانی صفات سے مرصع تھے۔ ان کے طور طریقے غیر انسانی تھے اور یہ ہر وقت خون کے پیاسے دکھائی دیتے تھے۔ قتل و غارت ، لوٹ ماران کا مشغلہ تھا۔ یہ ہر وقت ہر جگہ حملے کے لیے تیار تھے۔
سب سے پہلے منگلولوں نے۲۱۹۱ٗ چنگیز خان کی قیادت میں خوارزم شاہ کی سلطنت پرحملہ کیا۔یہ سلطنت اورل کے پہاڑوں سے لے کر خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ دوسری طرف یہ دریائے فرات سے لے کر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی ۔ اسے خوارزستان اور فارس کے دو پہاڑی راستے بھی جوڑتے تھے۔ لیکن اس ناممکن کو ممکن اس وقت بنایا گیا جب چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے ۱۲۵۸ء میں بغداد پر حملہ کیا۔ اس وقت، عراق کے دارالحکومت بغداد پر بنو عباس کی حکومت تھی۔ اور اس نے اس کی تباہی اور بربادی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔
ہلاکوخان نے بدترین انسانی ہلاکتوں کا انتہائی سفاکانہ اور ظالمانہ کھیل کھیلا۔اس وقت بنو عباس کے ابو احمد عبداللہ المعتصم بر سر اقتدار تھے۔ وہ ایک انتہائی کمزور، نااہل اور ڈرپوک قسم کا حکمران تھا۔ وہ عیش و عشرت کا دلدادہ او رطاؤس و رباب کا عاشق تھا۔اس نے بغداد پر ۱۲۴۲ء سے لے کر ۱۲۵۸ء تک حکومت کی۔
بغداد ایک بہت ہی خوبصورت شہر تھا جس کی بنیا دبنو عباس کے خلیفہ ابو جعفر المنصور نے رکھی تھی۔ یہ شہر پوری دنیا میں پر سکون ہونے کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے علم و دانش کا مرکز بھی سمجھا جاتا تھا۔ منگولوں نے بخارا، سمر قند، رائے ، ہیرات اور ہمدان کو تخت و تاراج کرنے کے بعد بغداد کا رخ کیا۔ منگلولوں نے عقابی اور ظالمانہ نگاہوں سے بغداد کا بھی جائزہ لیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بغداد منگولوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن گیا۔
جو عوامل بد ترین شکست اور حملے کا باعث بنے انہیں مندرجہ ذیل طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے ۔
خلیفہ انتہائی خود پسند واقع ہوئے تھے۔ وہ نا اہل تھے ۔خلیٖٖفہ المعتصم ملک کے دفاع سے بالکل لا پرواہ اور غافل تھا۔
مذہبی عقائد اور سیاسی گروہ بندیوں نے ملک میں نفاق پیدا کیا اور لوگوں میں ہم آہنگی ختم ہو گئی ۔
منگولوں میں توسیع پسندی کا احساس بہت تیزی سے پروان چڑھا۔ اور ان کے مقاصد سامراجی تھے۔
مسلمانوں میں فوجی حکمت عملی معدوم ہوتی چلی گئی۔ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ آٹھویں عباسی خلیفہ المعتصم باللہ نے بذات خود تباہی کی بنیاد رکھی۔ اس نے عرب جرنیلوں کو نکال باہر کیا اور افشین اشناس ، ایتخ اور وواصف جیسے جرنیلوں پر بھروسہ کیا۔
ترک فوجیوں کا عمل دخل اتنا تھا کہ خلیفہ خود کو ان کے سامنے بے حقیقت پاتا تھا۔ وہ محض نمائشی سر برا ہ تھا۔ منگولوں کی بربریت کا خوف ان پر طاری تھا اور تمام مسلمان ان کی حکمت عملی کے سامنے خود کو بے دست و پا پاتے تھے۔
منگول بغداد کے شہر کی طرف بڑھے۔ اور بے رحمی سے لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کا بھی بازار گرم کیا۔
اس سلسلے میں ہندوستان کے مشہور مئورخ سید امیر علی رقمطراز ہیں کہ بچے اور عورتیں ہا تھوں میں قرآن اٹھائے باہر نکلے ۔ ان منت سماجت کرنے والوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ وہ باپردہ اور نازک مزاج خواتین جنہوں نے کبھی ہجوم کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ، کو گلیوں میں گھسیٹا گیا۔ان کے ساتھ بد ترین قسم کی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا۔ تین دنوں تک شہر کی گلیوں اور دجلہ کے پانی کا رنگ سرخ رہا۔ اور دریا کے ساتھ ساتھ میلوں تک کا پانی بھی لہولہو تھا۔
قتل و غارت، عصمت دری اور لوٹ مار کا سلسلہ کئی دنوں تک نہ تھم سکا۔ محلّات، مساجد اور یادگاروں کو مسمار کر دیا گیایا انہیں آگ لگا دی گئی اور ان کے سنہری گنبد زمیں ریز ہو گئے۔ مدرسوں اور جامعات کے طلبہ اور اساتذہ کو قتل کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اسپتالوں میں مریض بھی بے دردی سے اس ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔
عباسی خلیفہ المعتصم کو مار مار کر ہلاکر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے تمام قریبی رشتہ داروںکو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
بغداد جو کبھی تہذیب و ثقافت کا مرکز تھا، جہاں سے علم کی کرنیں پھوٹتی تھیں، جہاں لوگ فنون اور سائنس کا درس لیتے تھے، کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔
منگولوں نے دریائے فرات کو عبور کیا اور میسوپیٹیمیا میں داخل ہو گئے۔ وہ جہاں کہیں بھی گئے ، اپنے ساتھ ظلم و ستم کی داستانیں لے گئے۔ ارد گرد کے بہت سارے شہر اس قتل و غارت کے سمندر میں نہا گئے۔ کچھ ایسے ملیا میٹ ہوئے کہ دوبارہ سراٹھانے کے قابل نہ رہے ۔
سقوط بغداد دنیا کی تاریخ کی المناک ترین داستانوں میں سے ایک ہے ۔منگلولوں نے جو تباہی اور بربادی کی داستان رقم کی ، اس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں، نا ممکن ہے ۔ یہ ایک دردانگیز تباہی تھی اور ایک ہولناک ظلم کی کہانی ۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک دلخراش حقیقت ہے کہ منگلولوں نے ظلم کے ان گنت پہاڑ توڑے اور ان حملوں سے جو نقصان ہوا، وہ صرف سیاسی ہی نہیں تھا بلکہ تہذیبی، ثقافتی ، تمدنی ، سائنسی اور تعلیمی بھی تھا۔
سیاسی طور پر مسلمانوں کی شہنشاہیت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ ان کی سیاسی برتری جس کی دھاک پوری دنیا میں بیٹھی ہوئی تھی، ختم ہو گئی۔ وہ طاقت، وہ اقتدار، وہ دولت ، وہ ثروت جو مسلمانوں کو حاصل تھی، شاید اس طرح ختم ہوئی کہ پھر لوٹ کر نہ آئی۔ مسلمان بیچارگی اوربے بسی کی دلدل میں گر گئے۔
ثقافتی طور پر بغدادکی عظمت اوروقار کا جنازہ نکل گیا۔ مقدس آئمہ کرام کے مزارات تباہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ اسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا۔
سائنسی لحاظ سے مسلمان جس تیزی سے سائنس کے میدان میں گامزن تھے، وہ ترقی رک گئی۔ مسلمان علماء کرام نے جو مسودے تحریر کئے تھے اور جو کتابیں تخلیق کی تھیں،انہیں نذر آتش کر دیا گیایاوہ دجلہ کی لہروں کے حوالے کر دی گئیں ۔ لائبریریوں کو زمیں بوس کر دیا گیا اور عقل و دانش کے حامل لوگوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ہی غلطیوں کی سزا بھگتی ہے ۔ وہ مسلمان جو اسلام کا علم لے کر اٹھے تھے کہ پوری دنیا میں چھا جائیں، سقوط بغداد کے بعد وہ صدیوں تک سر اٹھانے کے قابل نہ رہے ۔