موٹروے پر ٹیکسلا سے لاہور آتے ہوئے شیخوپورہ کی حدود میں ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ ہم بھی رک گئے مگر موٹر وے پر ٹریفک کا جام ہونا ایک پریشان کن واقعہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ابھی موٹروے پر رش نہیں ہوتا مگر چند منٹوں میں سینکڑوں ہزاروں گاڑیاں اکٹھی ہو گئیں۔
میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بچوں کی چیخیں عورتوں کی دہائیاں بوڑھی عورتوں کی بددعائیں حکام ذرا سوچیں کہ ایک چھوٹے سے دھرنے کے بعد موٹروے بند ہو سکتی ہے تو کل کو ہوائی جہازوں کا دھرنا بھی ہو گا مگر وہ ہو گا کہاں؟ نجانے اس ملک میں ابھی کیا کیا ہو گا؟
شام ڈھلے یہاں میلہ سا لگ گیا۔ لوگ اتنے پریشان نہ تھے۔ حیران بہت تھے۔ موٹروے پر قیامت کا سماں تھا مگر لوگ اسے بھی انجوائے کر رہے تھے۔ بالکل ساتھ ہی موٹروے پولیس ٹریننگ سنٹر ہے۔ میری اہلیہ رفعت کو خیال آیا کہ موٹروے میں اپنے بیٹے احسن خان کا ایک بہت اچھے دل والا دوست محمد سلیم ہے جو موٹروے پولیس میں انسپکٹر ہے۔ رفعت نے احسن خان اور محمد سلیم کو فون کیا۔ محمد سلیم نے پولیس ٹریننگ سنٹر شیخوپورہ میں اپنے دوست انسپکٹر شفاقت علی ہنجرا کو فون کیا۔ وہ چند ساتھیوں کے ساتھ فوراً پہنچ گیا۔
جس طرح ہماری آسودگی اور عزت مندی کا خیال ہنجرا صاحب نے رکھا۔ مجھے یقین آ گیا کہ موٹروے پولیس اصل پولیس سے بہت بہتر ہے بلکہ میرا خیال پولیس کے بارے میں بھی اتنا برا نہیں۔ ہنجرا صاحب اور سلیم صاحب اپنی اپنی شخصیت میں ایک جیسے مخلص ہیں۔ میں انہیں جڑواں دوست کا خطاب دیتا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے ابا بھی انسپکٹر پولیس ریٹائرڈ تھے۔ موٹروے پر پولیس والوں نے دوسروں کی بھی مدد کی۔
ہمیں فوراً پولیس ٹریننگ سنٹر کے ہوسٹل میں پہنچا دیا گیا۔ ڈی آئی جی موٹروے پولیس مرزا فاران بیگ بھی موٹروے کے اس واقعے میں اپنے اہلکاروں کی نگرانی کرتے رہے۔ ملک اسد چیف لا انسٹرکٹر بھی ہمارے پاس پہنچ گئے۔ ہم موٹروے پولیس افسران کے دوستانہ رویے سے بہت متاثر ہوئے۔ ہماری پولیس پوری طرح عوام دوست ہو جائے تو مظلوموں کے گھر ان کے لئے دعا¶ں سے بھر جائیں۔
اس سے پہلے تین چار دن اپنی بہن بتول کے گھر میں گزارنے کا موقعہ ملا۔ یہاں سے میں پنڈی اسلام آباد آدھے گھنٹے میں پہنچ سکتا تھا، مگر مجھے ان دوست شہروں کا خیال بھی نہ آیا۔ ٹیکسلا میں میرے بھانجے نبیل شاہد اور عزیزہ عظمیٰ کی شادی تھی اور ٹیکسلا والے دیکھ رہے تھے کہ ہم نے ان کے شہر کو اپنا شہر میانوالی بنا دیا ہے۔
ٹیکسلا میں جگہ جگہ برادرم چودھری نثار کے بورڈ لگے ہوئے ہیں۔ بتایا گیا کہ ٹیکسلا چودھری صاحب کا انتخابی حلقہ ہے اور وہ یہاں بہت پاپولر ہیں یہاں ایم این اے غلام سرور کا کوئی بورڈ نظر نہیں آیا جبکہ یہاں اُن کے ساتھ دو ایک بار ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ میرے دوست صحافی اورنگزیب جامی کا تعلق بھی ٹیکسلا سے ہے وہ برادرم غلام سرور کے بہت چاہنے والے ہیں، کبھی کبھی پاکستان کے مختلف شہروں میں جانا چاہئے ہم تو پنجاب کے چند شہروں کے علاوہ کہیں نہیں جا سکے۔
چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان بڑے شہروں میں آل پاکستان رائٹرز کانفرنس کروانے کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کے لئے بھی یہ اہتمام کریں کہ اہل قلم، اہل فکر اور اہل دل لوگ اپنا وطن تو دیکھ سکیں۔ بڑے شہروں میں تو لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے لئے راستے بنائے جائیں۔ یہی راستے دلوں کے شہر کی طرف بھی جائیں گے۔ موٹروے کے ذریعے اسلام آباد پنڈی کے لئے سہولت نہیں ہے ٹیکسلا جاتے ہوئے بھی موٹروے کا گماں رہا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024