”اشرافیہ کے ہاتھوں مقروض ، ایٹمی پاکستان “
2013 ءکے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن)کی قیادت عوامی جلسوں میں لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور معیشت کو بام عروج پر پہنچانے کے دعوے کرتی تھی‘لوگوں کو بھی امید تھی کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر بہتری اور بھلائی کے کام کریں گے ۔اور ہمارے مسائل حل ہوں گے ۔ لیکن چار سال دس مہینے گزرنے کے باوجود یہ لوگ معاشی چہرے پہ کوئی نکھار لائے نہ ہی مہنگائی ‘ لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور غربت میں کمی کا کوئی متعین کردہ سنگ میل عبور نہیں کیا جا سکا۔ اس وقت پاکستان بیرونی قرضوں کی آکسیجن پر کھڑا ہے اگر یہ آکسیجن اتر گئی تو معاشی ڈھانچہ گرنے میں دیر نہیں لگے گی۔اور یہ آکسیجن اگر کسی وقت ختم ہو گئی تو ہمارا کیا بنے اس کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،اس وقت پاکستان کے داخلی سیاسی حالات کے باعث کوئی ملک بھی قرضہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
ہر کوئی سوچتا ہے کہ وہ قرض کس کو دے رہا ہے ؟اس حکومت کو جو چند دنوں کی مہمان ہے ؟ جب ہر طرف سے حکومت کو بجٹ کے مطلوبہ اہداف پورے ہوتے نظر نہ آئے تواس نے آئی ایم ایف کی منت سماجت شروع کر دی ۔لیکن ڈاکٹر مائیک لوئیس نے کہا کہ ایٹمی قوت پاکستان کو اس مقام تک پہنچانے میں پاکستان کے جاگیرداروں اور سیاسی اور مذہبی لیڈروں کا کردار ہے اس پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض لیے کے لیے زہر کا گھونٹ پینا پڑے گا ۔یہ عوام کے لیے تشویشناک صورت حال ہے کیونکہ موجودہ حکومت جس کی مدت ڈیڑھ ماہ رہ گئی ہے اگر یہ سخت قواعد و ضوابط کے تحت قرضہ حاصل کر لیتی ہے تو اس کی واپسی عوام پر جان لیوا ٹیکس لگا کر ممکن ہو سکے گی۔ پہلے ہی حکومت نے اشیائے خورو نوش سے لے کر پٹرولیم مصنوعات بجلی اور گیس پر بے تحاشا ٹیکس لگا رکھے ہیں۔
جس نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے ۔ہر چیز پر ٹیکس سے اس کی قیمت دوگنی ہو گئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ملکی معیشت ڈھب پر لانے کے لیے پانچ سال ملے لیکن اس نے” ایٹمی قوت ملک“ کو بھکاری اور گداگر بنا دیا۔ اب بھی ہر پاکستانی سوا لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کے دعوے کرنے والوں نے قوم کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔1990ءمیں بھارت کی فی کس آمدن پاکستان کے مقابلے میں 40فیصد کم تھی۔2009ءمیں بھارت ہمارے برابر کھڑا ہوا اور آج بھارت ہم سے 200فیصد زیادہ فی کس آمدنی رکھتا ہے۔‘ پاکستان کی فی کس آمدنی 1600 ڈالر جبکہ چین کی 8000 ڈالر سے زیادہ ہے۔ جبکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی آمدنی میں ان برسوں میں ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر مائیک لوئیس نے حکمرانو ں کو آئینہ دکھایا ہے ۔موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لے کر بجٹ پیش کرنے کی بجائے اپنے پاس موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے صرف 2ماہ کا بجٹ پیش کرے اور باقی دس مہینوں کا بجٹ آنے والی حکومت پر چھوڑے تاکہ نئی حکومت اپنے وسائل کے مطابق بجٹ پیش کرے۔ اب پاکستان پھر لڑھکتا ہوا آئی ایم ایف کے پاس جا رہاہے جس کے بعد مزید ٹیکسوں کا نفاذ ہو گا ،حکومتی قرضوں کا حجم 23 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجانے کے بعد پاکستان کا ہر فرد 1لاکھ 15ہزار روپے تک کا مقروض ہوگیا ہے۔ معیشت کا پہیہ چلانے کی خاطر گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر آنے والی حکومت نئے قرضے کا بوجھ عوام پر چھوڑ جاتی ہے جس کے باعث پاکستان پر بیرون اور مقامی قرضوں کا حجم 23ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے جس میں 8 ہزار ارب روپے کا بیرونی قرض اور 15 ہزار ارب روپے کا مقامی قرضہ شامل ہے۔دوسری جانب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق 31دسمبر 2016 تک ملکی مجموعی قرضوں کی مالیت میں سال بہ سال 10فیصد کا اضافہ ہوا۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستانی حکومت نے اپنے موجودہ دورکے تین سال کے دوران 25ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کیا، جس سے مجموعی غیرملکی قرضوں کی مالیت 74 ارب ڈالر (7800 ارب روپے) پر پہنچ گئی۔ 2017 سے 2020 کے دوران پاکستانی بانڈز کی مدت معیاد مکمل ہونے پر حکومت 2ارب 75 کروڑ ڈالر ادا کرنے کی پاپند ہو گی۔ دوسری جانب آئندہ دو سال کے دوران ہی پیرس کلب اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادئیگیاں بھی شروع ہو جائیں گی۔ پیرس کلب کے 11ارب 70کروڑ ڈالر کے قرضوں کو 2001 میں ری شیڈیول کیا گیا تھا ۔جبکہ حکومت اس کے علاوہ مزید قرضوں کے حصول کی کوشش میں ہے ۔اس سے ہر پاکستانی مزید مقروض ہو گا ،حکمران طبقہ اگر اپنے اخراجات کم کرے تو قرضوں کی ضروت ہی نہ پڑے لیکن وہ اس جانب آتے ہی نہیں ،جس بنا پر ہم قرضوں کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ۔
”سرکاری لگژری گاڑیاں “
سپریم کورٹ نے وزراء اور سرکاری افسران کے زیر استعمال لگژری گاڑیوں کے استعمال کا ازخود نوٹس لے لیا۔اس سے گاڑیوں کی بندر بانٹ ختم ہو جائے گی پہلے جس کا جی چاہتا تھا وہ سرکاری خزانے سے نئی گاڑی لے لیتاہے لیکن اب صورت حل مختلف ہو گی ہے ۔چیف جسٹس نے ملک بھر کے وفاقی اور صوبائی محکموں سے لگڑری گاڑیوں کے استعمال کی رپورٹ طلب کرنے کے بعد سرکاری ملازمین پرشانی کی لہر دوڑ گی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا بتایا جائے کہ کتنے وفاقی وزرا اور سرکاری افسران اپنی حیثیت سے زیادہ پرتعیش گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کے کابینہ سیکرٹریز اور وفاقی سیکرٹریز کو رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحت اور تعلیم کی خراب صورتحال ہے لیکن افسران لگژری گاڑیاں انجوائے کر رہے ہیں۔انھیں ایساکرنے کو کوئی حق نہیں ہے ۔