کسانوں کی بربادی

دسمبر 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی روالپنڈی میں شہادت کے بعد معرض وجود میں آنے والی نام نہاد جمہوریت کے 9سال مکمل ہونے کو ہیں ان نو سالوں میں اگر کچھ نہیں مل سکا تو جمہور کو نہیں مل سکا ، جمہوریت کے نام پر بننے والی خاندانی آمریت میں زرداری اور شریف برادران کے اثاثے ، کاروبار بڑھتے ہی گئے ، جمہوریت کے بدلے میں عوام کو دی گئی محکومی ، بے روز گاری ، مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار ، جمہوریت کے دعوے داروں کی طرف سے پکاری جانے والی آمریت ( فوجی ادوار، جنرل ایوب سے لیکر جنرل (ر) پرویز مشرف تک عوامی فلاح کے تمام منصوبے انہی ادوار میں مکمل ہوئے چاہے وہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم یا پھر کسانوں کی خوشحالی کیلئے پختہ کھال ، سستی بجلی اور فصلوں کی بہترقیمتیں جس سے کسانوں کے چہروں کی رونقیں بحال ہوئیں، جونہی نام نہاد جمہوریت وارد ہوئی تو جمہور کو اس سے نفی کر دیا گیا تیل، کھاد، ادویات مہنگی اور فصلیں سستی کر دی گئیں۔ سونے اگلتے کھیتوں میں ہونے والی سبزیاں، دالیں و دیگر فصلوں کی قیمتیں مناسب کرنے کی بجائے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو نوازنے کیلئے واہگہ کے راستے تجارت کھول کر اپنے ملک کے کسانوں کا گلا ہی گھونٹ دیا گیا جس سے ہنستے مسکراتے کسانوں کے ہشاش بشاش بدن چلتے پھرتے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے۔ ان کو جمہوریت کی راہ میں نکلنے اور حق رائے دہی استعمال کرنے کا صلہ ان کے منہ سے ہی نوالہ چھین کر دیا گیا، چاول ، گنا اور گندم کی قیمتیں کم اور ان پر آنے والی لاگت 700گنا بڑھا دی گئی۔ میرے وطن عزیز کے کسانوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم سے دیہات میں رہنے والی 70فیصد آبادی جو کسی نہ کسی طریقے سے زراعت سے ہی منسلک ہے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر کے ترقی و خوشحالی کے دعوئوں کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ، جس کی مثال یہ ہے کہ 2800روپے من میں فروخت ہونے والا چاول کسانوں سے 1400روپے من خرید کر فائدہ تاجروں کو پہنچایاگیا، ان کی تجوریاں بھری گئیں ۔ایسے نامساعد حالات میں ملک معیشت کے اہم ستون کو نظر انداز کر دیا گیا جب اسے صحیح سمت میں استعمال کر کے کثیر زرمبادلہ کمایا جا سکتا تھا۔ کسانوں کو اڑھائی روپے دی جانے والی بجلی 10روپے یونٹ کر دی گئی ، کھاد پر دی جانے والی سبسڈی ختم اور تیل 100روپے لٹر کر دیا گیا یہ تھے وہ اقدامات اور سوچا سمجھا منصوبہ جس کے تحت میرے ملک کی زراعت کو تباہ کر دیا گیا ۔ ملک کا وسیع تر رقبہ جس کا انحصار ہی نہری پانی پر ہے ڈیم نہ بننے کی وجہ سے پانی کی کمی کا شکار ہو کر بنجر ہوگیا۔ مگر ان حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسانوں کے ساتھ کبھی گرین ٹریکٹر سکیم کے نام فراڈ کیا گیا تو کبھی زرعی پیکیج کا اعلان کر کے ان کے ارمانوں کا کھلواڑ کیا گیا، اربوں روپے کے زرعی پیکج میں منظور نظر افراد کو پٹواریوں کے ذریعے نواز دیا گیا۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو مسلسل 8سال تک وزیر زراعت سے ہی محروم رکھا گیا۔ اب جبکہ ایک سال ہونے کو ہے کہ پنجاب کو وہاڑی اور میلسی کے درمیان موضع دھلو سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے زمیندار خاندان کے چشم و چراغ نعیم خان بھابھہ کو وزیر زراعت بنا ہی دیا گیا ہے جن کے قلم دان سنبھالنے کے بعد کسانوں کو امید لگی تھی کہ شاید اب ان کے دکھوں کا مداوا ہو سکے گا مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ نہ تو کوئی زرعی پالیسی واضح ہوسکی اور نہ ہی کسانوں کی حالت بدلنے کیلئے کوئی اقدامات کئے جاسکے یہاں تک کہ گندم کی فصل اب بالکل تیار ہوچکی ہے مگر اس کی خریداری کیلئے بھی کوئی حکمت عملی واضح نہیں کی گئی چند روز قبل وزیر اعلی پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں پہلے 40لاکھ ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا گیا جسے اب بڑھا کر 57لاکھ میٹرک ٹن کر دیا گیا ہے۔گندم کی قیمت جو حکومت نے 1300روپے مقرر کی ہے وہ لاگت سے بہت ہی کم ہے آج سے شروع ہونے والی گندم کی خریداری مہم کے دوران جتنی بھی گندم خریدی جائے گی وہ گودام بھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے کھلے میدانوں میں ترپالوں میں رکھی جائے گی ۔ جو مون سون کی بارشوں کے دوران بہت سی خراب ہو جائے گی۔
محکمہ خوراک اور پاسکو کے پاس پہلے سے 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ موجود ہے جس میں پنجاب کے پاس 25لاکھ ٹن، پاسکو 12 لاکھ ٹن اور سندھ کے پاس 3 لاکھ ٹن گندم موجود ہے۔ نئی گندم آنے کے بعد سرکاری شعبہ کے پاس 97لاکھ ٹن گندم موجود ہوگی جس میں سرکاری شعبہ فلور ملز کو 55لاکھ ٹن گندم سالانہ فراہم کرے گا ۔گودام پہلے سے بھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے کسان ایک بار پھر افسر شاہی کے رحم وکرم پر ہونگے ، مڈل مین کو ہی باردانہ دیا جائے گااور وہ ہی سرکار سے ملکر ایک بار پھر کسانوں کی جیبیوں پر ہاتھ صاف کر ے گا ۔حکومت کے مسلسل خواب غفلت کی وجہ سے پاکستان گندم کی برآمد کیلئے افغانستان کی بہت بڑی مارکیٹ کھو چکا ہے وہاں پر اب قزاقستان کی گندم فروخت کی جا رہی ہے ۔حکومت کے بروقت کسان دوست اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے کسان گنا ، دالیں اور سبزیاں کاشت کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔ ایسے میں تمام محب وطن طبقوں کو حکمرانوں سے نجات کیلئے نکلنا ہوگا تاکہ بے روز گار کو روز گار ، بچوں کو تعلیم و صحت اور سب کو فوری اور سستا انصاف میسر آسکے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو آنے والے چند سالوں میں حکمران ملک کا دیوالیہ نکال دیں گے ۔
ہم نے حقیقی تبدیلی کے لئے موو آن پاکستان تشکیل دے کر عہد کیا ہے کہ گرین پاکستان مہم کے تحت زراعت کو اولین ترجیح دی جائے گی تاکہ دیہات میں رہنے والی 70فیصد آبادی ملکی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔ گرین پاکستان مہم کیلئے سب کو نکلنا ہوگا ورنہ بصورت دیگر نہ ختم ہونے والی تاریکیاں ہمارا مقدر ہونگی
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت بدلنے کا
اللہ نگہبان