آزادی کے بعد انگریز کا سیاسی غلبہ مغربی پاکستان سے اور ہندو کا سیاسی غلبہ مشرقی پاکستان سے دور ہوا۔رفتہ رفتہ مغلوبیت سے پیدا شدہ نفرت، علیحدگی، عدم تعاون، مخالفت کم ہوتی چلی گئی مگر اپنی ثقافتی وراثت پر عدم تو جہی جاری رہی۔ سابق غالب قوم کے کلچرکے خلاف مدافعت کمزور ہوئی اور اس کی قدریں، انداز، سلیقے اور طور طریقے اپنائے جانے لگے۔ یہاں ہم پہلے سے زیادہ مغربیت زدہ ہوگئے اور وہاں وہ غلامی کے دور سے زیادہ ہندومت اور برہمنیت زدہ گہرے اور دقیق معاملات کو چھوڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے نشانات کیطرف توجہ کی دعوت دیتاہوں۔ 1947سے پہلے ہندو خواتین کے ماتھے پرجو بندی انکی ذات اور انفرادی حیثیت، کنواری، شادی شدہ، بیوہ وغیرہ ظاہر کرنے کیلئے لگایا کرتی تھی،وہ اب مسلمان بچیوں اور عورتوں کیلئے زیبائش اور سنگھار کی چیز ہے۔ وہ مذہبی تہوار جو ہندو دیویوں اور دیوتاﺅں کے نام پر مناتے تھے،آج موسمی تہوار زیادہ شان و شوکت سے منائے جاتے ہیں۔ نام جو ہندو اور مسلمان میں تخصیص رکھتے تھے، ان میںبھی تبدیلی درآئی اور خالص ہندو نام بھی مسلمان ناموں کا حصہ بننے لگے۔ پچھلے دس سال میں بے شمار بچے اور بچیاں، ہندو دیومالا کے مشہور کرداروں کے نام سے موسوم ہیں اسلئے نہیں کہ ان ناموں میں کوئی خوبی ہے، محض اسلئے کلچرل مرعوبیت کا اثر ایسے اظہار پر آمادہ کرتا ہے پھر زبان میں انتہائی کثیف تبدیل آگئی بلکہ وہ تمام عوامل، وہ مائتھولوجی، وہ محاورے جو کہ ہندو مذہب فلسفہ،دیو مالا اور کلچر سے گہرا تعلق رکھتے ہیں رفتہ رفتہ زبان کے اظہار کا ذریعہ بن گئے۔ وہ گائیکی، وہ رسم ورواج،وہ اظہار اور قبول اور وہ تمام چیزیں جو کسی زمانے میں غالب قوم یعنی ہندوﺅں کی ہونے کی وجہ سے اپنائی نہیں جاتی تھیں اب انہیں اپنانے کی کوشش ہورہی ہے۔مغربی پاکستان: ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ کیجئے کہ بالکل اسی قسم کی حالت آپکے مغربی پاکستان میں ہے کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد یہاں زیادہ انگریزی بولنے والے، زیادہ مغربی کپڑے پہننے والے، زیادہ انگریزی تصور وتخیل سے متاثر ہونیوالے، زیادہ بہتر انگریزی لکھنے اور مسلسل انگریزی سوچنے، پڑھنے والے لوگ پہلے سے زیادہ پیدا ہو رہے ہیں اور اب مغربیت کا مغربی تہذیب کا کچھ زیادہ تسلط ہے اور یہ بات اس لئے نہیں ہے کہ یہ چیزیں بذات خود اعلی اورارفع ہیں۔ کہنے کو تو ہم یہ اٹھے تھے کہ ہماری زبان مختلف، ادب مختلف، فنون لطیفہ مختلف، فن تعمیر مختلف، نام و نسب مختلف، شعور واقدار مختلف، قوانین و اخلاق مختلف، رسم و رواج مختلف۔ پندرہ بیس اور صفتیں مختلف ہیں اور ہمارے لئے اوروں کے تصورات سے مفید تر ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو ہم مغرب کے ساتھ اس اختلاف کو کتنی خوبی سے صبح و شام مٹا رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ اگر مرعوبیت کے اس جذبے نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ہے تو انصاف کا تقاضہ ہے کہ ہم کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ صاحب وہ سب باتیں غلط تھیں۔ ہماری زبان وادب اور فنون لطیفہ اور ہمارا یہ اور ہمارا وہ، یہ سب کمزور تھے۔ کسی زمانے میں ان سے کام چل چکا، اب یہ حقیر ہوگئے ہیں۔ یہ زمانہ حال کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے، یہ مستقبل کی روشنی کے ستون نہیں ہیں۔ یہ تو ماضی کے ٹمٹاتے ہوئے چراغ ہیں۔ اس اقبال اور اعتراف کے بعد نہ آپ کو نظریہ پاکستان کی ضرورت پڑتی ہے، نہ کسی اور ملکی نظریے کی ضرورت ہے۔ آپ ایک آزاد مملکت ہیں، جس کی کچھ جغرافیائی حدود ہیں۔کچھ استحکام کے مطالبے ہیں، کچھ اقتصادی مسائل ہیں۔ اور وہ مسائل اب مختلف اقتصادی نظریات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش ہو گی۔ کبھی مسائل بین الاقوامی مصالحتوں سے طے ہونگے۔ اور کبھی مصلحتوں سے کہیں امداد لینی پڑیگی، کہیں آزادی¿ عمل کی قربانی دینی پڑیگی۔ غرضیکہ جس طرح اور آزاد قومیں مادی زندگی گزارتی ہیں، ہم بھی اپنی زندگی گزار لیں گے۔ اس میں رفتہ رفتہ ہمیں اس بات کا احساس ہو سکتا ہے کہ ایک عظیم آزاد ملک کا حصہ ہونا ایک آزاد مملکت کیلئے بہتر ہے تو رفتہ رفتہ ہم یہ سوچیں گے کہ پڑوسیوں میں کون زیادہ بڑا ہے کس کے ساتھ مدغم ہونے میں ہم لوگوں کا کم نقصان ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ جس زمانے میں آپ ”یہ“ ہوں گے اس زمانے میں وہ اختلافات اور وہ مخالفتیں بھی کم ہوئی ہوں گی۔ جو آج کل فوری طور پر آپکے سامنے ہیں۔ اس مآل کے بعد صرف یہ رہ جاتا ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ دنیاوی بہتری کی کون سی سب سے اچھی باتیں ہیں، عام تعلیم کا مرحلہ کس طرح سر کیا جائے کس طرح عمارات تشکیل کی جائیں، کہاں پل ہونے چاہئیں کہاں چاہ و تالاب ہو نے چاہئیں۔ اس کش مکش میں آپکے وسائل کبھی کم ہوں گے کبھی کافی۔ کم ہوں تو بھیک مانگ لیا کیجئے، کافی ہوں تو انہیں ان پرخرچ کر لیا کیجئے۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38