فاٹا میں پہلی مرتبہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کا حق
ایم ریاض ........ فاٹا
وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) افغانستان کی سرحد پر واقع قبائلی پٹی ہے ان قبائلی علاقہ جات کوانتظامی طور پر سات ایجنسیوں خیبر ایجنسی، مہمند ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان ایجنسی، جنوبی وزیرستان ایجنسی اور چھ فرنٹیر ریجنز (ایف آر) میں تقسیم کیا گیا ان ایف آرز میں ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ، ایف آر بنوں، ایف آر لکی مروت، ایف ٹانک اور ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان شامل ہیں قبائلی ایجنسیوں کے انتظامی سربراہ پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتے ہیںجبکہ ایف آرز کیلئے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں فاٹا کا مجموعی رقبہ 27ہزار 220کلومیٹر ہے سرکاری اعداد و شمارکے مطابق فاٹا کی آبادی 45لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ مقامی قبائل کا دعوی ہے کہ ان کے آبادی 75لاکھ سے ایک کروڑ نفوس پر مشتمل ہے سنگلاخ چٹانوں اور دشوار گزار دروں کی یہ سرزمین اس حوالہ سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ شمال کی جانب سے برصغیر پاک و ہند پر لشکرکشی کرنے والے فاتحین انہی راستوں سے ہندوستان کی جانب پیشقدمی کرتے رہے اور 17ویں صدی میں برصغیر پر حکمرانی کرنے والے انگریز افغانستان پر فوج کشی کیلئے انہی علاقوں کے راستے آگے بڑھتے رہے 1979 میں افغانستان پر روسی جارحیت کے بعد ان علاقوں نے افغان جہاد کیلئے بیس کیمپ کا کردار ادا کیا اور نائن الیون (11 ستمبر 2001) کے بعد افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی یلغار کے بعد افغانستان کی سرحد پر واقع ان موجودہ قبائلی علاقوں کو ایک بار پھر عالمی توجہ حاصل ہوئی جدید ترین سامان حرب سے لیس امریکہ نے جب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو وہاں موجود طالبان اور القاعدہ کی قیادت اور سرکردہ ارکان نے روپوشی میںعافیت جانی اور اس کیلئے پاکستان کے انہی قبائلی علاقوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا جنوری 2002کے آخر میں پہلی مرتبہ ان قبائلی علاقوںمیں پاک فوج کے دستوں کی تعیناتی کا آغاز ہوا یہاں حالات پر قابو پانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق یہاں بدامنی اور شورش کی آگ کے شعلے بڑھکنے لگے یہ خطہ امریکی ڈرون حملوں کی بھی زد میں ہے اس بدامنی کے باعث جنوبی ویزرستان، اورکزئی، خیبر، مہمند اور باجوڑ ایجنسی سے لاکھوں افراد نقل مکانی کر کے بے گھر ہوئے یہ قبائلی علاقے انگریز دور سے جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں یہاں ملکی قوانین کے برعکس 1901 کا رائج قانون فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) نافذ ہے اور ان علاقوں میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹ مقامی قبائلی سرداروں اور عمائدین کے ذریعہ یہاں کا نظام چلانے میں جہاں تک انتخابات کے تناظر میں یہاں کی سیاسی صورتحال کا تعلق ہے تو ان علاقوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ صوبائی اسمبلی میں یہاںکی کوئی نمائندگی نہیںان علاقوںکے عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق پہلی مرتبہ 1997 کے عام انتخابات میں حاصل ہوا اس سے پہلے ان علاقوں میں صرف سرکار کے نامزد قبائلی عمائدین کو ووٹ کا حق حاصل تھے جن کی تعداد ہر ایجنسی میں وہاں کی آبادی کے تناسب سے ڈیڑھ ہزار سے اڑھائی ہزار تک ہوا کرتا تھا اور کسی بھی صاحب ثروت امیدوار کیلئے ان ووٹروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بہت آسانی رہتی تھی یوں اس نظام کے تحت جہاں یہاں کے لاکھوں عوام ووٹ کے حق سے محروم رہے وہاں سرکار کے نامزد عمائدین کے ایک یا ڈیڑھ ہزار ووٹ حاصل کرنے والے معزز ارکان قومی اسمبلی اس لحاظ سے ملک کے سیاسی نظام میں عدم استحکام کا باعث بنتے رہے کہ انہیںانتظامیہ کے ذریعہ حکومت وقت کا وفادار بنایا جاتا رہا اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اشارہ ملنے پر وہ راتوں رات اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے پارلیمنٹ میں کسی بھی برسراقتدار حکومت کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیلی کر دیتے اور وفاداریوں کی اس بازی گری میں ان قبائلی ارکان قومی اسمبلی کی وفاداریوں اور وابستگیوں کو مراعات وغیرہ سے خریدا جاتا 1997کے عام انتخابات میںان علاقوںکے عوام کو ووٹ کا حق ملنے کے باوجود یہاں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذنہ تھا جس کی وجہ سے یہاں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی تھی اور 2002, 1997 اور 2008 میں ہونے والے گذشتہ تین عام انتخابات ان علاقوں میں غیرجماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے یہاں سے قومی اسمبلی کی کل 12 نشستیں ہیںجن میں خیبر ایجنسی سے دو، مہمند ایجنسی سے ایک، باجوڑ ایجنسی سے دو، کرم ایجنسی سے دو، شمالی وزیرستان ایجنسی سے دو، جنوبی وزیرستان ایجنسی سے ایک، اورکزئی ایجنسی سے ایک اور ایف آرز سے قومی اسمبلی کی ایک نشست شامل ہے گذشتہ عام انتخابات میں یہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 14 لاکھ 10ہزار 332تھی جن میں مجموعی طور پر 3لاکھ 97ہزار 593ووٹ پول ہوئے گذشتہ عام انتخابات کے نتائج کے مطابق مہمند ایجنسی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 36سے بلال رحمن، این اے 37کرم ایجنسی 1 سے ساجد حسین طوری، این اے 38کرم ایجنسی 2سے منیر خان اورکزئی، این اے 39اورکزئی ایجنسی سے جواد حسین، این اے 40شمالی وزیرستان ایجنسی 1سے کامران خان، این اے 41 شمالی وزیرستان ایجنسی 2سے مولانا عبدالمالک، این اے 43باجوڑ ایجنسی سے انجینئر شوکت اللہ، این اے 44 باجوڑ ایجنسی سے اخونزادہ چٹان، این اے 45خیبر ایجنسی سے نورالحق قادری، این اے 46خیبر ایجنسی سے حمیداللہ جان اور این اے 48ایف آرز سے ظفر بیگ بیٹنی ان انتخابات میں کامیاب ہوئے جبکہ جنوبی وزیرستان ایجنسی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 42پر وہاں امن و امان کے مسائل کی وجہ سے الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکا دلچسپ امر یہ ہے کہ 2008کے عام انتخابات میں پاکستان بھر میں سب سے کم ووٹ حاصل کرنے والے رکن قومی اسمبلی بھی فاٹاسے تھے یہ مہمند ایجنسی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 36سے کامیاب ہونے والے بلال رحمن تھے جو اس حلقہ کے کل رجسٹرڈ ووٹوں 1لاکھ 26ہزار7 ووٹوں میںسے پول ہونے والے 22 ہزار 873 ووٹوں میں سے صرف 5270 ووٹ حاصل کر کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اسی طرح باجوڑ ایجنسی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے اور بعد میں وفاقی وزیرسرحدات و ریاستی امور کے منصب پر فائز ہونے والے انجینئر شوکت اللہ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے پہلے سویلین اور سیاسی شخصیت ہیں جنہیں گورنر خیبر پختونخوا کے عہدہ پر فائز کیا گیا ہے یہ اور بات ہے کہ آئین میں ہونے والی اٹھارویں ترمیم کی اس شق جس کے تحت کسی صوبہ کا گورنر کا اس صوبہ کا رجسٹرڈ ووٹر ہونا ضروری ہے کے تحت گورنر شوکت اللہ کی تقرری کو عدالت میںچیلنج کیا گیا ہے کیونکہ آئین پاکستان کے تحت فاٹا صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ نہیں اور گورنر شوکت اللہ کا ووٹ فاٹا کے علاقہ باجوڑ ایجنسی میں درج ہونے کی بنیاد پر وہ 2008کے عام انتخابات میں وہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اگرچہ جمعیت علماءاسلام (ف) اورجماعت اسلامی سمیت مختلف جماعتیں ایک عرصہ سے قبائلی علاقوں میں سرگرم عمل رہیں تاہم وہاں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ نافذ نہ ہونے کی وجہ سے عملاً سیاست اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی رہی 2011ءمیں قبائلی علاقہ جات میں اصلاحات کے پیکج میں وہاں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کا نفاذ بھی عمل میں لایا گیا ہے اور یوں 11مئی 2013 کے عام انتخابات قبائلی علاقہ جات میں پہلی مرتبہ قبائلی عوام کو سیاسی جماعتوں سے وابستگی کی بنیاد پر انتخاب لڑنے اور ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا ہے جس سے جہاں ایک طرف قبائلی عوام میں خاصا جوش و خروش پایا جا رہا ہے وہاںسیاسی جماعتوں نے بھی فاٹا سے قومی اسمبلی کی 11نشستوں کیلئے امیدواروں کی نامزدگی کی ہے اور پہلی مرتبہ یہاں امیدواروں کی انتخابی مہم میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رنگ برنگے جھنڈے لہرا رہے ہیں اور ان جماعتوں کے قائدین کی تصویریں اور انتخابی نشانات کی تشہیر زور و شور سے جاری ہے ان انتخابات کیلئے مجموعی طور پر 16 لاکھ 75ہزار 978 ووٹ رجسٹرڈ ہیں جن میں پانچ لاکھ55 ہزار236 خواتین، 11لاکھ 20 ہزار 726 مرد اور 22 خواجہ سراءشامل ہیں قبائلی علاقوں میں ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد باجوڑ ایجنسی میںہے جو3 لاکھ 36 ہزار 638 ہے قبائلی علاقے روایتی طور پر قدامت پسند تصورکئے جاتے ہیں جبکہ نائن الیون کے بعد رونما ہونے والے حالات اور 2007کے اوآخر میں یہاں جنم لینے والی تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد ہونے والی کاروائیوں سے اس علاقہ کے حالات گھمبیر ہو گئے ہیں روایتی طور پر کم و بیش تمام قبائلی علاقوں میں امیدواروں کی باہمی مفاہمت کے نتیجہ میں خواتین ووٹروں کی پولنگ نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود حالیہ انتخابات میں باجوڑ ایجنسی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 44سے ایک خاتون امیدوار بادام زری انتخابات میں حصہ لے رہی ہے 40سالہ بادام زری مقامی قبائلی سلطان کی اہلیہ ہیں جو کہ ایک گھریلو خاتون ہے اوران کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے پر وہ قبائلی علاقہ جات خصوصاً باجوڑ ایجنسی کی خاتون کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں گی واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی کل342 نشستوں میں سے 60نشستیںخواتین کیلئے مخصوص ہیں ان مخصوص نشستوں پر پنجاب سے35، سندھ سے14، خیبر پختونخوا سے8 اور بلوچستان سے 3 خواتین قومی اسمبلی کی رکن بنتی ہیں جبکہ قبائلی علاقوںسے قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے کوئی نشست نہیں اس صورتحال میں بادام زری کا جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لینا نہ صرف ان کے حلقہ ا نتخاب کے لوگوںبلکہ دنیا بھر کیلئے اچنبھے کی بات ہے قبائلی علاقے جہاں پاکستان کی سکیورٹی کے لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں وہاں اس حوالہ سے بھی انتہائی اہم اور حساس ہیںکہ یہاں دنیا کی عالمی قوتوں کی دلچسپی پائی جا رہی ہے اور خصوصاً امریکی صدر اوبامہ کی جانب سے 2014ءمیں افغانستان سے انخلاءکے بعد ان علاقوں میں عالمی قوتوں کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے قبائلی علاقوں میں پہلی مرتبہ سیاسی سرگرمیوں اور سیاسی جماعتوںکی بنیاد پر منعقد ہونے والے عام انتخابات جن میں امیدوار ذاتی، انفرادی اور قبائلی بنیادوں کی بجائے ملک گیر سیاسی جماعتوںکے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑ رہے ہیںاور اب یہ دیکھنا ہے کہ اس دور افتادہ اور پسماندہ قبائلی بیلٹ میں سیاسی عمل کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات ان علاقوں اور پورے خطہ میں امن و استحکام میں کس حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔