جمہوریت بلاشبہ دنیا کے بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ہم نے جن ممالک سے جمہوریت کی نقل کی وہاں یہ سسٹم صدیوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ہمارے ہاں یہ 65سال میں بھی ثمر آور شجر نہیں بن سکا۔ اسکی دوہی وجوہات ہیں۔ایک تو ہمارے ہاں جمہورت کیلئے وہ ماحول نہیں جواس کو وہاں میسر ہے جہاں سے ہم نے مستعار لی ہے ۔دوسری وجہ یہ کہ فوجی آمریت نے اسکی جڑیں کاٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قیام پاکستان کے بعدآدھے سے زیادہ عرصہ مادر وطن میں طویل دورانئے کے مارشل لاءرہے ۔باقی عرصہ جو جمہوریت رہی وہ بھی اکثر جرنیلوں کے زیرِ سایہ رہی۔جمہوریت کی اسکی روح کے مطابق کارفرمائی کیلئے ایسا یا اس سے ملتا جلتا ماحول بھی ہونا چاہئے جس میں پنپ کر تناور درخت بنی۔وہاں شرح خواندگی سو فیصد یا اسکے قریب قریب ہے۔ہمارے ہاں اگر میٹرک پاس کو بھی تعلیم یافتہ قرار دیا جائے تو بھی شرح خواندگی پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں۔ووٹر اور امیدوار کیلئے چونکہ کوئی تعلیمی معیار مقرر نہیں اسلئے پارلیمنٹ میں جانیوالے ان کو منتخب کرنیوالوں کے عکاس ہوتے ہیں۔2002ءکے انتخاباب سے قبل پارلیمنٹرین کیلئے گریجوایشن لازمی قرار دی گئی تو بھی ان پڑھ لوگوں پر پارلیمنٹ کے دروازے بند نہ ہوسکے ۔بہت سے لوگوں نے جعلی ڈگریا ں بنا کر الیکشن لڑا۔ ایسے جعلسازوں کا ووٹر کو علم تھا وہ بھی چونکہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اسلئے انہوں بھی اسکا بُرا نہیں منایا۔جب تک آپ جمہوریت کو وہی فضاا ورہی ماحول نہیں دیں جو اس کی نفاذ اور قیام کیلئے ضروری ہے، یہ کامیابی سے چل ہی نہیں سکتی البتہ اپنے ماحول میں رہتے ہوئے اس کومثالی تو نہیں کافی حد تک بہتر ضرور بنایا جا سکتا ہے ۔جیسا کہ الیکشن کمیشن عدلیہ اور نگران حکومت نے امید دلائی تھی۔الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کے موقع پر بے رحم سکروٹنی کے عز م کا اظہار کا اظہار کیا تھا۔ ایک موقع پر بے رحم اور بے لاگ سکروٹنی ہوتی بھی نظر آئی جب جعلی ڈگری ہولڈرز کو سزائیں سنائی جارہی تھیں، نظریہ پاکستان کیخلاف زبان درازی کرنیوالوں کے کاغذات مسترد ہو رہے تھے ۔ایسے اقدامات پر عوام میں اطمینان پایاجاتا تھا کہ اب انکو ایسے لوگوں سے نجات مل جائیگی جو ملک و قوم کو بحرانوں کی دلدل میں پھنسانے کے ذمہ دار ہیں۔جن کا ایک پہناوالاکھوں کا ، جبکہ انکو اس مقام پر پہنچانے والوں کو کفن کیلئے بھی چندہ اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔انکے اونٹ، گھوڑے اور کتے بھی امپورٹڈ خوراکیں کھاتے ہیںاور دوسرا طبقہ نانِ جویں تک کو ترستا ہے۔عوام کواس حالت کو پہنچانے اور معیشت کو دیوالیہ کی حد تک لیجانے کے ذمہ دار وہی ہیں جو قومی وسائل کو پانچ سال لوٹتے رہے اور جنہوں نے آخری دنوں میںتاحیات مراعات اپنے نام کرلیں۔ایک ایک شخصیت کو سینکڑوں کے حساب سے گارڈز دیئے گئے ہیں ۔ الیکشن کمیشن نے غیرضروری سکیورٹی واپس کرنے کو کہا تو انکے ترجمانوںنے واویلا شروع کر دیا کہ اگرہمارے پیاروں کو کچھ ہوا تو ذمہ دار الیکشن کمیشن اورنگران ہونگے۔ اس دھمکی پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب دُبک گئے ، آئی جی سوچوں میں گم ہیں۔کسی لیڈر کی حفاظت یقینا حکومت کی ذمہ داری ہے ،کیا سب سے بڑھ کر اپنی جان کی حفاظت کرنا خود لیڈر اسکی پارٹی کی ذمہ داری نہیں؟۔ کتنی شرم کی بات ہے سابق وزرائے اعظم سپیکر ،وزیر داخلہ اور اسی قبیل کے دیگر رہنما ،جن کے جائز ناجائز دولت سے پیمانے چھلک رہے ہیں وہ آخری سانس بھی حکومت کے خرچ پر لینا چاہتے ہیں۔ان کی خواہش ہے کفن پر بھی سرکاری مہر لگی ہو۔وسائل کی ایک مراعات یافتہ طبقے میں بند ر بانٹ جاری رہی تو دوسرے تمام طبقات پستے پستے اپنا وجود تک کھو دیں گے، جمہوریت کا یہ منشا ءکبھی نہیں رہا۔وہ کسی حد تک اپنی اصل شکل میں سامنے آرہی تھی ۔شاید مراعات یافتہ طبقہ اتنا طاقتور ہے کہ اس نے عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو بھی یرغمال بنا لیا ہے ۔ بے رحم سکروٹنی کے عزم وارادے دم توڑگئے۔جس تیزی سے جعلی ڈگری والے جیل گئے اس سے بھی زیادہ سرعت کے ساتھ رہا بھی ہوگئے کئی کو الیکشن لڑنے کی بھی اجازت دیدی گئی۔جن کے کاغذات جس بنیاد پر بھی مسترد ہوئے اپیلوں میں منظور کر لئے گئے۔ مسترد اور منظور کرنیوالے حکام کا تعلق براہ راست عدلیہ سے ہے ۔اس عدلیہ سے جس سے عوام نے اپنے دکھوں کے مداوے کی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔
عوام کو یہاں سکروٹنی کے عمل پر تحفظات ہیں وہیں شفاف انتخابات کے انعقاد پر بھی خدشات ہیں۔نگران حکومتوں کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بن چکی ہے۔پنجاب میں تھوک کے حساب سے تبادلے ہورہے ہیںمرکز اور دیگر صوبوں میں ایسی ہلچل نظر نہیں آتی ۔عملی طور پر الیکشن کمیشن عضوِ معطل کی تصویر بنا نظر آتا ہے ۔کہیں اسکے احکامات کے مطابق تبادلے نہیں ہورہے اور کہیںتبادلوں کیلئے اس سے پوچھا ہی نہیں جاتا۔الیکشن کمیشن نے ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک سے 24گھنٹے میں چارج واپس لینے کا حکم دیا، بیورو کریسی نے حکم ماننے سے انکار کردیا۔ بیوروکریسی نگرانوں کو کئی معاملات میں لفٹ نہیں کرا رہی۔وزیر اعظم نے لوڈشیڈنگ کم کرنے کیلئے 20ارب روپے کی منظوری دی ۔وزارت خزانہ نے صارفین کے بلوں سے جمع ہونیوالی رقم سے بیس ارب دینے سے انکار کردیا۔ شاید اسے اپنے حصے کی لت پڑ چکی ہے۔نگران کہیں جانبدار اور کہیں بے بس نظر آتے ہیں۔بعض اوقات اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے بھی کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔پیپلز پارٹی کو کبھی آمر نے تباہ کرنے کی کوشش کی، کبھی گھر کے بھیدیوں نے الگ پارٹی بنا کے لنکا ڈھانے کی لیکن بھٹوز کی اس پارٹی نے ہمیشہ اپنا وجود برقرار رکھا۔اب اسکو اسکے وارثوں نے گمنامی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے ۔پانچ سالہ کارکردگی کے بعد یہ اسی صورت سنبھل سکتی ہے کہ ٓائندہ حکمران اس سے بھی بڑے کفن چور واقع ہوں جس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ (ن) کے مطابق اگلے دور کی وہ متوقع حکمران ہے، اس دعوے کاوزیر داخلہ ملک حبیب نے ادراک کیا اور اپنی حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کی خوشامد میں رطب السان ہو گئے۔ملک حبیب خان نے کہا کہ” میاں نواز شریف اس وقت بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد واحد قومی لیڈر ہیں جن کے دل میں قوم کا حقیقی درد ہے۔ وہی ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی شاہد خاقان عباسی کو ووٹ دیا۔ اس مرتبہ بھی مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کو ہی ووٹ دونگا۔ نواز شریف منجھے ہوئے سیاستدان ہیں نوازشریف نے ملک میں جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کیلئے جو قربانیاں اور مدد دی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی“۔ نئے ملک صاحب کے بیان پر پی پی پی اور تحریک انصاف نے شدید احتجاج کیا اورانکو کابینہ سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا،دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اس بیان کے بعد وزیر داخلہ پر فدا ہوئی جارہی ہے۔ ان عقل کے ماروں کو کون سمجھائے کہ مسلم لیگ (ن) نے جیتنا تو اپنے بل بوتے پر ہے، الزام ملک حبیب پر جانبداری کا لگے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی ساکھ پر الگ سے سوال اٹھے گا۔بہتر ہے کہ نگران ایسے ہوا کا رخ بھانپنے والے وزیر کی چھٹی کرادیں اور اسکا مطالبہ شدت سے مسلم لیگ (ن) بھی کرے۔الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی مایوس کن کارکردگی اظہرمن الشمس ہے۔ انتخابات ہوئے (جن کا ہنوز امکان نہیں ہے)تو دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024