امریکہ کے بعد برطانوی سفارت کاروں کی الیکشن کے حوالے سے دلچسپی

پہلے امریکہ اور اب برطانیہ والے بھی پاکستان میں الیکشن کے حوالے سے فکر مند نظر آ رہے ہیں۔ بھلا ان کا اس سے کیا لینا دینا۔ کیا پاکستان نے کبھی برطانیہ یا امریکہ کے الیکشن کے حوالے سے دلچسپی دکھائی ہے۔ ان دونوں کویا یورپی یونین کو ہمارے الیکشن سے اتنی دلچسپی معنی خیز اشارے دے رہی ہے۔ جس کی وجہ ہم خود اور ہمارے سیاستدان ہیں۔ جو دوڑے دوڑے ان کے درپر چلے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود
ترے درتے آ کے سجناوے
اسی جھولی خالی لے چلے
کا نوحہ ان کے لبوں پر جاری رہتا ہے۔ سوائے تنقید کے یہ ممالک اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جنہیں صرف اپنے مفادات سے مطلب ہے۔ پاکستان میں خواہ آمریت ہو یا جمہوریت انہیں صرف یہ مطلب ہے کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ ہاں دکھاوے کے لئے ان ممالک کے لبوں پہ جمہوریت کا راگ ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان ہی کچھ غیرت پکڑیں۔ اپنے اندرونی معاملات میں دوسروں کو مداخلت کی راہ دکھانے کی بجائے انہیں ایسے معاملات سے دور رکھیں۔ تاکہ انہیں بھی ہماری حمیت کا احساس ہو اور وہ ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔ مگر افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہم خود بار بار ڈسے جانے کے باوجود انہی سے دوا لینے جاتے ہیں۔ جن کی بدولت آج ہم اس حالت پر پہنچے ہیں۔ اگر تھوڑی بہت بھی ہم میں ہمت ہوتی تو ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ہم بھی برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم رشی اور امریکہ کی سابق وزیر کمیلا کے تقرر پر ہی آواز بلند کرتے کہ بھارتی نڑاد ہیں یہ ہمارے مفادات کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کسی نے ایک حرف شکایت بھی زبان پہ لایا ہو....
خان نے عارف علوی سے 90روز میں الیکشن کی تاریخ دینے کی استدعا کی ہے، وکیل پی ٹی آئی
اب اسے گٹھ جوڑ کہا جائے گا یا ہم آہنگی، اس کا فیصلہ عوام خود کریں گے۔ ہمارا کسی سے کیا لینا دینا۔ ہاں البتہ عوام بہترین رائے دے سکتے ہیں۔ اب جو صدر مملکت نے الیکشن کرانے کے لئے 90 روز کا کہا ہے۔ اس پر بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب یہ اختیار صدر کے پاس
نہیں ہے وہ آرام سے ایوان صدر میں
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے....
کے مصداق آرام کریں پنگ پانگ کھیلیں، مارننگ یا ایوننگ واک کریں۔ زیادہ دل چاہے توا طمینان سے جیسے پہلے صدر ہونے کے باوجود زبان پارک میں خاں کے آستانے پر حاضری دینے چلے آتے تھے خاموشی سے پروٹوکول ترک کرکے سادگی سے اٹک جا کر مرشد سے ان کی چلہ گاہ میں بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔ انہیں کون روک سکتا ہے پہلے بھی وہ صدر تھے۔ آج بھی ہیں۔ سب کچھ ویسا ہی ہے۔ بس مقام ملاقات بدلا ہے۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے وہ کہتے ہیں ناں ”یہ ملاقات اک بہانہ ہے پیار کا سلسلہ پرانا ہے“ تو پھر کسی کی پرواہ کیوں کی جائے۔ اب سابقہ حکومت جاتے جاتے انکے بہت سے اختیار سلب کر گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود اگر صدر مملکت کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہہ دیں۔ انہیں کون روک سکتا ہے۔ بس ان کے رویہ میں صدر مملکت کا وقار جھلکتا نظر آنا چاہیے ناں کہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن کا۔ وہ پوری قوم کے صدر ہیں کسی ایک جماعت کے نہیں۔ انہیں موجودہ صورتحال میں مدبرانہ مشفقانہ رول ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ تحریک انصاف کے وکلا اسی طرح کا تاثر پھیلاتے رہیں گے کہ صدر نے ہمارے چیئرمین کے کہنے پر یہ کیا ہے۔ وہ کیا ہے جیسا کہ وہ اب کہہ رہے ہیں کہ خان نے صدر مملکت کو 90 روز میں الیکشن کی استدعا کی ہے۔جو انہوں نے مان لی ہے۔
بھارت میں جنونیت کا راج ہے بڑے جنونی کو زیادہ مقبولیت ملے گی، نصیرالدین شاہ
یہ ایک حقیقت ہے جس سے بھارت کے لیجنڈ اداکار نصیرالدین شاہ نے پردہ اٹھایا ہے۔ واقعی اس وقت بھارت میں نفرت اور جنونیت کا دور دورہ ہے۔ قاتل غنڈے اور مجرم حکومت کر رہے ہیں۔ زہریلے ناگ راج سنگھاس پر براجمان ہیں۔ ایسے میں جہاں سے بھی شنانتی کی کوئی معمولی سی کمزور آواز بھی بلند ہوتی ہے تو یہ جنونی اسے خاموش کر دیتے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جی20 کے اجلاس میں شرکت کرنے والے بڑے بڑے مہان دیشوں نے بھی بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا علم ہونے کے باوجود وہاں اس حوالے سے اپنے ہونٹ سی لئے منہ بند رکھے۔ بھارت میں اس وقت جنونی حکمرانوں کا نشانہ سب سے زیادہ مسلمان بن رہے ہیں صرف یہاں تک ہی بات رہتی تو اسے بھارت کا اندرونی معاملہ کہا جا سکتا تھا۔ اپنے پڑوسی ملک کا پاکستان کے ساتھ بھارت کا رویہ بھی نہایت انتہائی اشتعال انگیز ہے۔ وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرتا رہتا ہے۔ بات سیاست تک محدود ہوتی حکمرانوں کی بڑھک بازی کہلاتی۔ مگر اس کی فلمی دنیا میں بھی نفرت کو ہوا دی جاتی رہی ہے۔ مودی حکومت کے موجودہ دور میں دیکھ لیں۔ غدر ٹو، کیرالہ سٹوری، کشمیر فائل جیسی منفی اور مکروہ فلمیں بنا کر پورے بھارت میں مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی کی راہ ہموار کرنے میں ان فلموں نے بھی بڑا کام کیا ہے۔ کیا مسلمان آج بھارت میں آئے ہیں۔ یہ تو سب اسی دیش کے باسی ہیں جو صدیوں قبل مسلمان ہوئے وہ بھی اپنی مرضی سے آج تک ہو رہے ہیں۔ یہ اسلام کی آفاقیت ہے کہ وہ ہر دور میں تمام تر ابتلا کے باوجود مضبوط اور توانا رہتا ہے۔ بڑے بڑے طوفان آ کر مسلمانوں سے ٹکراتے ہیں اور ناکام ہو جاتے ہیں۔ نفرت اور تعصب کی اندھی آندھیاں مسلمانوں کاکچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ نصیرالدین شاہ ایک مسلمان ہیں ساتھ ہی وہ محب وطن ہندوستانی ہیں اسی لیے انہیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دکھی کرتے ہیں اور وہ ایسا بیان دینے پر مجبور ہیں۔
سعودی عرب میں پاکستان کی 8 کروڑ 40 لاکھ کی لاٹری نکل آئی
سچ کہتے ہیں بھیا”اوپر والا جب بھی دیتا ہے تو دیتا ہے چھپڑ پھاڑ کے“۔ سو اب اس پاکستانی بھائی کی قسمت دیار غیر میں جا کر ایسی کھلی ہے کہ اب وہ اگر واپس بھی آئے تو کروڑ پتی ہونے کی وجہ سے اس کی عزت ہوگی۔ سب اٹھ اٹھ کر اسے سلام کریں گے۔ وہ پیارا سا گھر بنا کرگاڑی خرید کر سب سے خراج تحسین وصول کرے گا۔ اگر عقلمند ہواتو چھوٹا موٹا کام جس میں اسے مہارت وہ بھی کر سکتا ہے۔ دیار غیر میں کوئی بھی خوشی سے نہیں جاتا ہاں اپنے اور اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کے لئے البتہ سب کوشاں رہتے ہیں کہ باہر جا کر 5 یا6 سال لگا لیں تو کچھ کما سکتے ہیں۔ اب اس پر بھی بہت سے آسودہ متمول لوگوں کو تکلیف ہے جنہوں نے کبھی بھوک نہیں دیکھی۔ ننگ سے کبھی ان کا واسطہ نہیں پڑا۔ انہیں کیا معلوم کہ مجبوریاں کیا ہوتی ہیں۔ بیوی بچے ماں باپ بہن بھائی کیا کیا توقعات رکھتے ہیں۔ وہ تو خود منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انہیں انسانی وسائل کے بیرون ملک جانے کا قلق ہے تو وہ خود اپنے ملک میں ایسا ماحول کیوں نہیں بناتے کہ سب محنت کش، مزدور، غریب کم آمدنی والے خوش و خوشحال ہوں اور باہر پردیس جانے کی کوئی سوچے بھی نہ۔ یہاں تو الٹا حساب ہے جس کی وجہ سے اب تو پڑھا لکھا باشعور پاکستانی بھی دیگر محنت کش مزدوروں کی طرح باہر جانے کوترجیح دیتا ہے کیونکہ ہمارے ایلیٹ کلاس کے تمام لوگوں کے بچے اور بیگمات بھی باہر ہی رہتی ہیں۔ لہٰذا کبھی کبھار وزیر اعظم کی یہ بات درست ہی لگتی ہے کہ جو پاکستانی باہر جاتاہے وہ گھر کے ساتھ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔