بدھ‘ 7؍ صفر‘ 1443ھ‘ 15؍ ستمبر2021ء
خالی پریس گیلری دیکھ کر صدر مملکت حیران
یہ مقام صرف حیرانگی کا نہیں، پریشانی کا بھی ہے۔ سچ کہیں تو پشیمانی کا ہے۔ صدرمملکت کی تقریر ہو اور پارلیمنٹ کی پریس گیلری خاموش اور خالی ہو تو کیا خاک مزا آئے گا اس تقریر کا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صحافیوں کو پارلیمنٹ میں گھسنے ہی نہیں دیا گیا۔ ایسی پابندی مارشل لا دور میں بھی لگانے کی کسی میں ہمت نہ ہوئی ، اب پریس گیلری کی تالہ بندی کر دی گئی۔ وجہ یہ ہے کہ حکومت اظہاررائے کی آزادی پر قدغن لگانے والا پی ایم ڈی اے بل نافذ کرنا چاہتی ہے۔ جو صحافیوں کو کسی قیمت پر منظور نہیں۔ الیکٹرانک ہو یا پرنٹڈ میڈیا، سب اس کے خلاف یک زبان ہوکر احتجاج کر رہے ہیں۔ ابھی تو بل آیا نہیں مگر اس کے سیاہ اثرات پہلے ہی نمایاں ہونے لگے ہیں۔ حکومت نے پہلا وار کرتے ہوئے صحافیوں پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیئے ہیں۔ صدر اس بات پر حیران و پریشان تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر آفرین ہے ان کے صبروضبط پر یا مجبوریوں پر کہ انہوں نے ایک لفظ بھی اس بارے میں نہیں کہا۔
پارلیمنٹ کے اندر جو کچھ ہوا، یہ علیحدہ کہانی ہے۔ پارلیمنٹ کے باہر کئی دنوں سے صحافی دھرنا دیئے ہوئے ہیں مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ صحافی بھی ڈٹے ہوئے ہیں بقول غالب…؎
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں
ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اب دیکھتے ہیں زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔ وہ لوگ جو آزادی اظہار رائے کی مالا جپتے تھے، آج خود اظہار رائے پر پابندی لگا رہے ہیں۔
٭٭٭٭
کنٹونمنٹ بلدیاتی الیکشن میں حیران کن نتائج سامنے آئے
پہلے تو یہ واضح ہو گیا کہ پنجاب میں ابھی تک مسلم لیگ (ن) زندہ ہے۔ گرچہ ناتواں ہے مگر جسم میں جاں باقی ہے۔ اہم شہروں میں اس کا ووٹ بنک متاثر نہیں ہوا۔ خاص طورپر پنجاب کے دل لاہور میں اور شہر اقتدار کے جڑواں شہر راولپنڈی میں وہ کانٹا بن کر کھٹک رہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پنجاب سے پی پی کا صفایا ہو چکا ہے۔ وہ پورے پنجاب میں کہیں بھی قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکی۔ حتیٰ کہ سرائیکی بیلٹ کہہ لیں یا جنوبی پنجاب کہہ لیں، وہاں بھی بلاول کے بڑے جلسے کچھ نہ کر سکے۔
’’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا‘‘
ایسا کیوں ہوا یہ بات پیپلزپارٹی کے سیاسی افلاطون زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کیلئے بھی یہ نتائج زیادہ خوش کن نہیں ہیں۔ بے شک حکومتی ترجمان ڈھول بجا بجا کر شور مچائیں، مبارکبادیں دیں مگر اندر سے وہ بھی سہمے ہوئے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا۔ کنٹونمنٹ بلدیاتی الیکشن میں ووٹروں کا موڈ کیوں بدل گیا۔ پوش علاقوں سے بھی وہ پہلے جیسی کامیابیاں نہ سمیٹ سکے۔ شاید اس کی وجہ ہر گھر کا کچن ہے۔ جہاں مہنگائی بال کھولے بین ڈال رہی ہے۔ ہاں البتہ چاندی ہوئی ہے آزاد امیدواروں کی جن کی بڑی تعداد تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ اب یہ ان بلدیاتی اداروں میں اپنی من مانی کرتے پھریں گے۔ بہرحال ایک بات واضح ہے کہ اب کہیں حکومت ملک بھر میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی اپنی سوچ سے کہیں رجوع نہ کر لے کہ ان کے نتائج بھی ایسے ہی نہ ہوں۔
٭٭٭٭
خواجہ سرائوں کا گرفتاریوں اور تشدد کے خلاف مظاہرہ
آج کل لاہور پولیس سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ اس کی زد میں خواجہ سرا بھی آ رہے ہیں۔ کیونکہ اب یہ رواج بن گیا ہے کہ خواجہ سرا سرخی پوڈر لگا کر ہر سڑک پر ٹریفک اشارے کے سرخ ہوتے ہی گاڑیوں ، رکشوں ، موٹر سائیکلوں پر یوں دھاوا بولتے ہیں گویا جگا ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کے ساتھ ہی لولے، لنگڑے ، اندھے ، فقیر جن میں مرد اور عورتیں بھی شامل ہیں کی یلغار بھی اچھے بھلے انسان کو حواس باختہ کر دیتی ہے۔ شہری ان دونوں سے نالاں ہیں۔ فقیروں کی تو بات چھوڑیں ان میں منظم وارداتیے بہت پائے جاتے ہیں۔ مگر اب یہ خواجہ سرا جو بھیک مانگنے کے کاروبار میں مشغول ہیں یہ بھی کسی سے کم نہیں ۔ یہ بھی اپنے ہاتھ کا کمال دکھانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ کئی مقامات پر تو یہ نوری نت اور مولا جٹ کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ پہلے جیسی مسکین مخلوق نہیں رہی۔ ان کو حکومت نے ہر طرح کی سہولتیں دی ہیں۔ مگر یہ پھر بھی ناز و نخرے دکھانے اور تالیاں بجانے کے ساتھ اب بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پہلے یہ کہیں کہیں نظر آتے تھے اب جابجا ملتے ہیں۔ شوقیہ طور پر خواجہ سرا بن کر ناچنے گانے اور بھیک مانگنے کا آرام طلب پیشہ اپنانے والے بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ روز خواجہ سرائوں نے پولیس بھکاریوں کے خلاف مہم کے سلسلے میں خواجہ سرائوں کی جو پکڑ دھکڑ کی تو وہ بھی میدان میں آگئے اور احتجاجی جلوس نکالا جس میں سینکڑوں خواجہ سرا تالیاں بجاتے پولیس پر نفرین کرتے نظر آئے تو پولیس نے ایکشن لیا اور 100 خواجہ سرائوں کو پکڑ لیا جو اب تھانے میں بیٹھے دکھی گانے گا کر تھانے والوں کا دماغ چاٹ رہے ہیں۔
٭٭٭٭
زیادہ فراغت بھی موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ نئی تحقیق
فراغت کا وقت ملنا گرچہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی شاعرنے کیا خوب کہا تھا
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھتے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
زندگی کی بھاگ دوڑ میں فرصت کے فراغت کے لمحات کا میسر آنا نصیب ہی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو میسر آ جائیں تو وہ اسے غنیمت جانے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اب سائنسی تحقیقات نے فراغت کے ان لمحات کا مزہ کِرکرا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ محققین بتا رہے ہیں فراغت کے زیادہ لمحات (مواقع) آپ کو موٹاپے کی طرف لے جاتے ہیں اور وزن بڑھاتے ہیں۔ لو اس خوشی کی بات کو بھی غم کی خبر بنا دیا ہے۔ اردو شاعری میں شاید اسی لیے فراغت کے لمحات میں بھی کام کاج کرنے کی تلقین ملتی ہے۔
بیکار مباش نہ بیٹھ‘ کچھ کیا کر
کپڑے ہی ادھیڑ کر سیا کر
سو اب سائنسی ماہرین اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں تو امید ہے ہمارے شاعر اور فلسفی حضرات جو اکثر فارغ ہی نظر آتے ہیں اب ان لمحات میں بھی کچھ نہ کچھ کرتے نظر آئیں گے تاکہ صحت بھی اچھی رہے اور آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔
٭٭٭٭٭