ڈی اے پی مزید مہنگی گندم کی کاشت متاثر ہونے کا خدشہ
عالمی مارکیٹ کو جواز بناتے ہوئے مقامی فرٹیلائزر کمپنیوں نے ڈی اے پی کی قیمتوں میں ایک ہزار روپے اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد کھاد کی بوری 5600 سے بڑھ کر 6600 روپے کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی ہے ، ڈی اے پی کا ریٹ بڑھنے سے کاشتکاروں پر اڑھائی سے تین ارب کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ کاشتکار تنظیموں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ڈی اے پی مہنگی ہونے سے چھوٹا کاشتکار مزید مشکلات و مسائل کا شکار ہو جائے گا کیونکہ زرعی مداخل پہلے اتنے مہنگے ہیں کہ کاشتکار ایک فصل اٹھانے کے بعد دوسری کاشت کرنے کیلئے آڑھتی کے دروازے پر دستک دیتا ہے، ڈیزل کے نرخ بھی پہنچ سے باہر ہیں جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے بجلی بھی مہنگی کر دی گئی ہے دوسری طرف ہمارے مقابلے میں ہمسایہ ملک بھارت کے کاشتکاروں کو بجلی ، کھاد ،بیج نہ صرف سستے مہیا کیے جا رہے ہیں بلکہ ان پر سبسڈی بھی دی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں زراعت پر ملنے والی سبسڈی بتدریج ختم ہی کر دی گئی ہے ، حکومت نے اگرچہ کسان کارڈز کے اجراء کا اعلان کر رکھا ہے لیکن اسکے حصول کا طریق کار اتنا پیچیدہ اور مشکل ہے کہ ’’پھرناں ہی سمجھیں‘‘ والا معاملہ ہے۔ ایسی صورتحال میں ڈی اے پی کی قیمتیں بڑھانا کاشتکاروں کے ارمانوں پر بجلی گرانے کے مترادف ہے کیونکہ ڈی اے پی کے نرخ بڑھنے اور دیگر زرعی مداخل مہنگے ہونے سے گندم کی کاشت بری طرح متاثر ہو گی اسکے ساتھ ساتھ دیگر اجناس کی پیداوار میں بھی کمی آئیگی جس کے نتیجہ میں حکومت کو گندم اور دیگر اشیاء ضروریہ درآمد کرنا پڑیں گی جو زرعی ملک ہونے کے ناطے نہ صرف انتہائی شرمناک ہے بلکہ اس پر بھاری زرمبادلہ بھی خرچ ہو گا۔ اس لیے حکومت ڈی اے پی کی قیمتوں میں اضافے کا فوری نوٹس لے ، کھاد کمپنیوں کو قیمتوں میں کمی کیلئے احکامات جاری کرے۔