سعودی عرب میں نوادرات کے شوقین ایک شہری نے زندگی کے 33 سال ماضی میں استعمال ہونے والی نوادارات جمع کرنے پر صرف کیے اور اس دوران اس نے 7 ہزار سے زاید نایاب نوادرات جمع کر کے اپنے گھر کو عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی بنی مالک گورنری کے رہائشی جبران العلیلی المالکی نے بتایا کہ اس نے زندگی کے 33 سال نوادرات جمع کرنے پر لگائے۔ جازان اور اطراف کی سیر کو آنے والے وہ تمام سیاح جنہیں اس میوزیم کا پتا چلتا ہے وہ اس کا وزٹ ضرور کرتے ہیں۔
العلیلی نے کہا کہ اس نے نوادرات کا پہلا قطعہ 1408ھ میں حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے ماضی میں استعمال ہونے والی متروکہ اشیا جمع کرتا اور ان میں سے قیمتی اور اہمیت کی حامل اشیا اپنے میوزم کے لیے لے لیتا۔اس کا کہنا تھا کہ نوادرات کا پہلا قطعہ جو اسے ملا وہ باورچی خانے میں کھانے پکانے کا ایک برتن تھا۔ وہ ایک ایسا برتن تھا جو پرانے زمانے میں استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگر اسے ایسی اور اشیا ملتی گئیں اور اس نے اپنے گھر کے ایک حصے کو ایسی تاریخی نوادرات کے لیے مختص کر دیا۔
العلیلی نے بتایا کہ 1420ھ تک اس نے تین ہزار نوادرات جمع کرلیں مگر اس نے یہ سفر ترک نہیں کیا بلکہ نوادرات کی تلاش کا عمل جاری رکھا یہاں تک کہ آج اس کے گھر میں 7 ہزار سے زائد نوادرات موجود ہیں۔ یہ نوادرات ہمیں سعودی عرب کے ماضی کی طرف لے جاتی ہیں اور گذشتہ صدیوں کے دوران انسان کی سماجی ترقی کے پرت ہمارے سامنے کھولتی ہیں۔نوادرات میں اسلحہ، بندوقیں، تلواریں، سکے، کرنسی نوٹ، گھروں میں استعمال ہونے والے برتن اور دیگران گنت اشیا شامل ہیں۔ایک سوال کے جواب میں نوادرات کے شوقین سعودی شہری نے بتایا کہ بعض نوادرات اسے بغیر کسی قیمت کے مل گئیں تاہم بعض کو انہیں بھاری قیمت دے کر خریدنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ 'داﺅدی' زرع حاصل کرنے کے لیے اسے 15 ہزار ریال کی رقم ادار کرنا پڑی تھی۔