منگل ‘ 26محرم الحرام 1442ھ‘ 15 ؍ ستمبر 2020ء
پڑھے لکھے طبقات کا سرعام پھانسی کا مطالبہ معاشرے کی متشدد سوچ کا عکاس ہے:فواد چودھری
واہ کیا بات ہے فواد جی کی‘ ایسی باتیں انہی کو زیب دیتی ہے۔ انہوں نے یہ کوئی نئی سائنس یا ٹیکنالوجی دریافت کی ہے کہ گولی مارنے والے کو جواب میں پھول پیش کریں یا سر تسلیم خم کر کے سینے پر ٹھاہ گولی کھالی جائے اور ونس مور کا نعرہ بھی لگایا جائے۔اس حساب سے تو ڈاکو، چور، قاتل، کرپٹ ہر قسم کے مجرم کو پھانسی اور سزا دینے کا مطالبہ واقعی معاشرے کی متشدانہ سوچ ہی کہلائے گا۔ جبکہ فواد جی کے نزدیک مجرموں کے لئے تو ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘ والی حالت ہر جگہ نظر آنی چاہئے پھر اس کے بعد معاشرے کا جو حال ہو گا اس کا خدا ہی حافظ ہو گا۔ اب اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ فواد جی کے خلاف جو وزرا جرأت اظہار دکھلا رہے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ان کی ’’ذمہ دارانہ‘‘ باتوں سے ’’خوش‘‘ ہیں۔ اگر مجرم کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ متشدانہ سوچ ہے تو پھر عدالتوں، جیلوں کو بند کر دیں۔ ہر طرف امن کا شانتی کا اہنسا کا پرچار کریں۔ کوئی گولی مارے تو اسے کہیں ایک اور گولی ماریں۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی اپنی جگہ جرائم کی بیخ کنی اپنی جگہ۔ معاشرے کو راہ راست پر لانے کے لیے سزا کا تصور بہت ضروری ہے۔ ورنہ سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ شاید فواد جی کی سائنس یہ مفروضہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
٭٭٭٭
مری میں ہوٹل مافیا کا سیاح فیملی پرتشدد
لگتا ہے مری میں ہوٹل مافیا کا دماغ پھر خراب ہونے لگا ہے۔ 2018ء میں دو برس قبل بھی ہوٹل مالکان نے غنڈہ گردی کی انتہا کرتے ہوئے جس طرح سیاحوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا خواتین اور بچوں کا بھی لحاظ نہ کیا اس کے بعد مری کے بائیکاٹ کی جو مہم چلی اس دور میں ملکہ کوہسار کی ویرانی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ مری کی گلیاں کسی بیوہ کی اجڑی مانگ کی طرح سونی سونی لگتی تھیں۔ پھر خدا خدا کر کے معاملات بہتری کی طرف مائل ہوئے تو ایک بار پھر وہی غنڈہ گردی سر اُٹھانے لگی۔ سیاح تو مہمان ہوتے ہیں۔ کوئی جاہل ہی مہمانوں کی بے عزتی کرتا ہے۔ مہمانوں کی تلخ و ترش بات بھی میزبان یا ہوٹل والوں کو ہنس کھیل کر برداشت کرنی پڑتی ہے۔ مگر یہاں تو اُلٹ حساب ہے۔ نہ عورتوں کو بخشا جاتا ہے نہ بچوں کو۔ کیا سیاحتی انڈسٹری کے لئے ایسی باتیں زیب دیتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایک سیاح کا بازو بھی ٹوٹا ہے۔ اب وہاں کے ایم پی اے یا ایم این اے سیاحوں کو ہی تحمل کا بھاشن دیتے نظر آئیںتو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ وہ خود اس غلط رویے کو ہوا دے رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ منہ زور بے لگام ہوٹل مافیا کو لگام دی جاتی کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ واقعہ ایک بار پھر مری کی پررونق بستی کو کسی ویرانے کی طرح نہ بنا دے۔ مری بائیکاٹ مہم پھر نہ چل پڑے۔ ویسے بھی مری ہی حرف آخر نہیں اور بھی بہت سے دوسرے سیاحتی مقامات سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭
مولانا فضل الرحمن کی چودھری شجاعت سے ملاقات خیریت دریافت کی
خبر سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ دونوں رہنمائوں میں یہ ملاقات حسن اتفاق سے بس …؎
یہ ملاقات اک بہانہ ہے
پیار کا سلسلہ پرانا ہے
تک ہی محدود رہی۔ حیرت کی بات ہے مولانا فضل الرحمن اپوزیشن رہنمائوں سے ملتے ملتے اچانک یہ چودھری برادران کے ڈیرے تک کیسے چلے گئے وہ تو اقتدار کی گلی میں واقع ہے۔ اس ملاقات پر لامحالہ سوالات تو اٹھتے تھے۔ مگر وڈھے چودھری نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ صحافیوں سے بات چیت میں چودھری شجاعت نے فوری طور پر وضاحت کر دی کہ ملاقات میں سیاست کے سوا ہر موضوع پر بات ہوئی۔ دونوں رہنمائوں نے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور کرونا بحران پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اب خدا جانے اس ملاقات کے بعد کی وضاحت کے بعد حکومتی ایوانوں میں ہونیوالی چہ مگوئیاں ختم ہونگی یا اندیشہ ہائے سود و زیاں برقرار رہے گا۔ چودھری شجاعت کی ق لیگ حکمران اتحاد میں شامل ہے۔ ان کے حکومتی کام کاج بھی مثبت طریقے سے چل رہے ہیں۔ دونوں طرف ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ والی گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی روایتی ملاقات سے یہ گرمجوشی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ آگے اوپر والے کی مرضی وہ سب کچھ جانتا ہے۔ کون کب دوست اورکون کب دشمن بن جائے کوئی نہیں جانتا۔
٭٭٭٭
نیب کی تحویل میں والدکو کیسا کھانا ملتا رہا کہ بیماری میں شدت آ گئی: مریم نواز
مریم نواز کا یہ سوال واقعی غور طلب ہے۔ جب سابق وزیر اعظم نیب کی تحویل یا قبضے میں تھے اس وقت انہیں گھر سے کھانا منگوا کر کھانے کی سہولت ختم کر دی گئی تھی۔ اب مریم صاحبہ کہہ رہی ہیں کہ وہ کیسا کھانا تھا جس کی وجہ سے ان کے والد کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی۔ معاملے کی سنجیدگی اپنی جگہ مگر کیا یہ اسی کھانے کی کرامت کی نہیں کہ میاں صاحب کو فوراً باہر جانے کی اجازت مل گئی ورنہ ہماری جیلوں میں ہزاروں قیدی ایسے کھانے کی وجہ سے طرح طرح کی ناقابل علاج بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ انہیں باہر جانے کی سعادت بھی نصیب نہیں۔ بہرحال اب تحقیقات اس بات کی بھی ہونی چاہئے کہ وہ کون چھپا رستم یا میاں جی کا خیرخواہ تھا جس کے کھانوں کی بدولت میاں صاحب کو علاج کے لئے لندن بھیجنا پڑا۔ اب لندن میں دیکھ لیں دروغ برگردن راوی۔ میاںجی گھر پر ہی رہتے ہیں کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔ علاج گھر پر ہو رہا ہے۔ باہر آنا جانا بھی لگا رہتا ہے۔ یوں ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے ہیں۔ جیل سے نجات بھی اور لندن کے پرکیف نظاروں میں چہل قدمی بھی۔ بھلا ایسی رعایت کسی اور قیدی کو مل سکتی ہے جو میاں جی کے حصے میں آتی ہے۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
’’ہر قیدی کے واسطے لندن کی فضا کہاں‘‘
مریم نواز بھی میاں جی کی صحت یابی اور اچھی حالت پر شکر بجا لائیں سوچیں اگر وہ جیل میں ہوتے تو کیا ہوتا…