سانحہ موٹروے اور انسانیت

پچھلے ایک ہفتے سے تخت لاہور تو انہونے واقعات میں گھرا ہی تھا لیکن سانحہ موٹروے سے لگتا ہے تخت آسمانی ضرور لرز اُٹھا ہے۔ بنی نوع انسان کی بربریت کے وحشیانہ ظلم و جبر سہتے سہتے اب تو بھینی بھینی باس والی زمین کی مٹی بھی متعفن ہو چکی ہے۔ سانحہ موٹروے جیسی ہزاروں دلخراش انہونیاں ہر لمحے اس پاک زمین پر ہو رہی ہیں۔ وہ زمین جس کی مٹی سے اشرف المخلوقات انسان تشکیل دیا گیا۔ وہ زمین جس پر فساد پھیلانے اور اکڑ کر چلنے سے قرآن پاک میں منع کیا گیا۔ وہ زمین کہ جس پر ہر نماز میں بار بار انسانی سجدہ کرایا گیا۔ انسان کے کالے کرتوتوں نے اس پاک زمین کو داغدار کر کے رکھ دیا۔ کروڑوں انسانوں کے مسکن اس زمین پر غلاظت کے چند ڈھیر وہ گند ڈالتے ہیں جس کے چھینٹوں سے لاکھوں اُجلے اور اعلی کردار بھی تعفن زدہ ہو جاتے ہیں۔ گو برائی ہمیشہ اقلیت میں رہی ہے لیکن کہیں پڑے گندگی کے ڈھیر کی بدبو تو اردگرد کے تمام ماحول کو آلودہ کر دیتی ہے۔
انسان چاہے موٹر وے کو ظاہری طور پر پیرس کے ہم پلہ بنا دے۔۔ شاندار عمارتیں جدید پلازے اور بنگلے باغات بنا کر مٹی کا نام و نشان مٹا دے جدید سائنس سے پوری دنیا کو گلوبل ویلج کر دے۔ لیکن جب تک اپنے اندر کی غلاظت کی صفائی نہیں کرتا۔ سب بے معنی ہے۔ سارا سسٹم بدبودار ہے۔ سارا ماحول تعفن زدہ ہے۔
جتنی محنت ہم نے عمارتیں سڑکیں ادارے بنانے پر کی ہے اس سے آدھی محنت بھی اگر کردار بنانے پر صرف کر دیتے تو آج یہی مٹی جنت کا نمونہ ہونی تھی۔۔ اسی انسان سے فرشتے حیا کرتے۔۔۔۔ آخر ہم کب سدھریں گے۔۔ ؟ کب راہ راست پر آئیں گے۔۔۔؟ آج نہیں تو کب انسانی تربیت کا آغاز ہوگا۔۔۔ ؟ آج ایسے بچے نہیں ایسی مائیں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے بچوں کو شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرح سچ کا درس دیتی تھیں اور وہ واقعات ہماری درسی کتب کا حصہ ہوتے تھے۔۔ ہمیں ضرورت ہے ایسی اخلاقی تربیت کی جو پورے معاشرے کو سنوار دے۔۔۔ ہمارے حکمرانوں ہمارے اداروں اور ہمارے اعلی دماغوں کو اب سر جوڑ کے بیٹھنا ہوگا۔۔۔ اور کوئی ایسا مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔۔۔ کوئی ایسا ادارہ بنانا ہوگا جہاں ایسے کریمنل جو ریکارڈ پر آجاتے ہیں انکی پانچ دس سالوں تک تعلیم و تربیت کر کے ذہن سازی کی جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے کہ انسانوں کے اس پاکیزہ معاشرے میں یہ چند جانور نما لوگ کسی کو چیڑ پھاڑ نہ سکیں۔
موٹر وے پر نشانہ بننے والی وہ مہذب اور معزز خاتون جس کا میڈیکل اندرون لاہور کے ایک ٹیچنگ ہسپتال میں ہوا۔۔۔۔ کوئی ہولناک قیامت خیز مناظر تو ہوں گے وہ۔۔۔ کہ جسے دیکھتے اور سنتے ہی تمام ارباب اختیار بھی سہم کر رہ گئے اور انسان کے مہذب ہونے کا اس ملک میں پہلا واقعہ رونما ہوا کہ فوری طور پر متاثرہ خاتون کی شناخت کو ہر سطح پر چھپایا گیا۔۔ ورنہ تو ایسے ہزاروں واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر رپورٹ ہو بھی جائیں تو میڈیکل اور تھانے سے لیکر عدالتی شہادتوں میں وہ دھجیاں اڑائی جاتی ہیں کہ تن کے چیتھڑے تو کیا روح بھی لیرولیر ہو جاتی ہے۔۔
گو سانحہ موٹروے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑی پیش رفت کر چکے ہیں کیونکہ پاکستان میں 2010 سے پولیس ہر ریپ کیس کا ڈی این اے کرواتی ہے جس کا بار کوڈ محفوظ ہوجاتا ہے اسی بارکوڈ سے اس درندہ ملزم کی فوری شناخت ہوئی سائنسی تفتیش اور موبائل سم کے ڈیٹا اور نقل و حرکت کی جیو فینسنگ سے ملزم کے دوسرے ساتھی کی بھی فوری شناخت ہوگئی لیکن اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وقار نامی دوسرا ملزم ماڈل ٹاون لاہور کے تھانہ سی آئی اے میں پیش ہوکر بیان دے چکا ہے کہ جس سم کارڈ کی وجہ سے پولیس اسے مجرم گردان رہی ہے وہ سم کارڈ اس کے برادر نسبتی عباس کے زیر استعمال ہے جس کا مرکزی ملزم عابد سے رابطہ اور واسطہ ہے وہ دونوں مل کر وارداتیں کرتے ہیں۔۔ ہو سکتا ہے ان سطور کی اشاعت تک تھانہ گجر پورہ لاہور جس میں یہ مقدمہ درج ہے ملزمان کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن واقعہ کے فوری بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے بیان نے جو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس کا ازالہ آئی جی کے شوکاز نوٹس سے ممکن نہیں ہے جو غیر ضروری بیان دینے پر سی سی پی او کو دیا گیا ہے یہ وہی سی سی پی او ہیں جنہوں نے اپنی حالیہ تعیناتی کی پہلی میٹنگ میں ہی اپنے آئی جی کو للکارا کہ کیسے مجھے سی کیٹگری کا افسر قرار دیا۔ جس کے یکے بعد دیگرے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ پوری پنجاب پولیس کا مورال ہی ہوا میں لٹک کر رہ گیا جس سے تبصرہ نگار اور مبصر یہ دور کی کوڑی لانے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی تعیناتی ن لیگ کا محاسبہ کرنے کے لیے خصوصی طور پر عمل میں لائی گئی ہے اسی ٹاسک کی بدولت موصوف اتنے مضبوط ہیں کہ ان کی خاطر آئی جی پنجاب پولیس کو تبدیل کر دیا گیا۔۔۔ اب یہ عام فہم بات سمجھ سے باہر ہے کہ اتنے بڑے رینک کا آفیسر مخصوص تھانے دارانہ لب ولہجے کے بیانات دے رہا ہے اور اگر ان کی تعیناتی کسی ٹاسک کا ہی حصہ تھی تو اس ٹاسک کو اور ٹاسک دینے والوں کو کس مقام پر کھڑا کر دیا ہے ان کے جارحانہ بیانات نے۔۔ ٹاسک تو ہمیشہ خفیہ ہوتے ہیں لیکن ببانگ دہل ایسی باتوں کے سامنے آنے سے قوم میں پھیلی سراسیمگی تو حقیقت کا روپ دھارتی ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہے جنہیں عوام کی فلاح و بہبود اور بہتری سے کوئی سروکار نہیں ان کے شاید اپنے ایجنڈے ہیں جس سے اداروں کے ڈسپلن اور مورال کے برعکس فیصلے ہوتے ہیں سننے میں تو یہ بھی آیا تھا کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ جب ڈیرہ غازی خان میں آر پی او تھے تو وزیراعلی نے بھی بڑی مشکل سے ان کی ٹرانسفر کرائی تھی۔
٭…٭…٭