کیا بھول گئے اپنا نعرہ؟
ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگانے والے حکمران کے دور میںعورت کی نسل ہی کو زندہ درگور کرنے کاسلسلہ جاری ہے ۔لاہور موٹر وے پر جس ماںکو اس کے بچوں کے ساتھ زندہ گاڑا گیا کیا کل قیامت میں رب ذالجلال کے سامنے اس سے پوچھا نہیں جائے گا ’’با ایّ ذنب قُتِلت؟ کہتمھیں کس جرم کی سزا میں قتل کیا گیا؟ یا کس جرم کی سزا میں ذلیل و خوار کیا گیا؟ کیا ایسے نا شکرے حکمرانوں کیلئے اللہ نے نہیں کہا ہے کہ’’ قُتِلَ الاِنسانُ ما اکفر ہ ‘‘ اللہ کی مار ایسے انسان پر ، کیسا ناشکرا ہے۔ کیا کیا وعدے کیے تھے۔ کرسی مل گئی تو عوام کو بھول گیا۔شاہراہ پر ایک اکیلی عورت کا قصور یہ ہے کہ وہ دیر سے کیوں نکلی؟کیا وہاں کوئی بورڈ لگا تھا کہ رات کو نہ نکلنا۔ کیا ٹول ٹیکس لینے والوں نے اسے روکا تھا؟اسلامی حکومت کی نبی اکرم ؐ نے تعریف یہ کی تھی کہ حیرہ (عراق) سے مکہ تک اکیلی عورت زیور سے لدی سفر کرے گی مگر اس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ کافروں کے ملک میں تو عورت ہزاروں میل اکیلے سفر کرتی ملے گی مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج لاہور سے گجرانوالا کے سفر میں اکیلی عورت محفوظ نہیں ہے۔یہ ہے نیا پاکستان؟ حیرت یہ ہے کہ کسی کو شرمندگی تک نہیں ہے۔ یہ وہ وقت ہے وزیر اعلیٰ پنجاب کو خود ہی استعفاء دے دینا چاہئے تھا۔ سی سی پی او لاہور کا بیان اس مائینڈ سٹ کی نمائندگی کرتا ہے جو پاکستان کی پولیس اور عدلیہ کا خاصہ ہے۔اقبال ؒ ایسے ہی کارندوں کے بارے میں گورنس کا ایک اصول بتاتے ہوئے کہتے ہیں؛
باز گیر این عاملِ بد گوہری
ورنہ بخشم ملک تو با دیگری
ایسے بد گوہر افسر کو روکو ورنہ تمھاری حکومت کسی اور کو بخش دیں گے۔ مظلوم ماں کی آہ ضرور سنی جائے گی۔ ظالموں پر لاٹھی ضرور برسے گی۔ تحریک انصاف کا پہلا کام انصاف کا نظام لانا تھا۔ نہیں لا سکتے تو اپنی پارٹی کا نام بدل ڈالو۔ پاکستان کو گندگی سے پاک کرنا تھا، نہیں کر سکتے تو جاؤ ، قوم کو اندھیروں کی طرف اور نہ دھکیلو۔ پورٹل سے انصاف نہیں ملتا ۔یہ ایک جعلی عکس ہے دنیا کو دھوکا دینے کیلئے۔ ذرا یہ بتاؤ کہ جو عورت پاکستان اپنے بچوں کو فرانس سے لے کر آتی ہے کہ یہ یہاں اسلامی تہذیب و تمدن سیکھیں گے اس کو پاکستان میں تم نے کیا دیا؟اس ماں اور اس کے بچوں، اس کے شوہر یا اس کے خاندان کیلئے پاکستان کیا بن گیا ہے؟ وہ بار بار پولیس کو کہتی رہی مجھے گولی مار دو، مجھے گولی مار دو! کیا اسے زندہ چھوڑا گیا؟ کیا اس کے بچے پاکستان کے نام سے ہی سہم نہیں جائیں گے؟دنیا کو اسلام کا کونسا امیج ہم نے دیا ہے؟ حکمرانوں کے برے اعمال نے پاکستان اور اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دنیا کے سب سے بڑے مسلمانوں کے ملک میں عملی اسلام دیکھنے کیلئے نو مسلم جب جب آئے وہ واپس توبہ توبہ کرتے ہوئے بھاگ گئے۔لوگ ملک سے کیوں ہجرت نہیں کریں گے؟
اگلا سین دیکھیے!! اب یہ ماں عدالتوں میں پھرے گی؟ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگائے گی؟ تاریخ پر تاریخ پڑے گی؟ جرح پر جرح ہوگی؟
تفصیلات کی دکان لگے گی؟ کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات آتے رہیں گے؟ مجرم اسی قوم میں دندناتے رہیں گے۔ لوگ بھول جائیں گے۔ میڈیا ذکر تک نہیں کرے گا۔دس بیس سال کے بعد وہ سپریم کورٹ تک پہنچے گی اور جب فیصلہ آئے گا تو پتہ چلے گا وہ تو کب کی اس جہاں سے ہی چل بسی۔ پھر رب العالمین عالمی عدالت میں اصل فیصلہ سنائے گا۔ شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور آخرت پر ہمارا ایمان ہے ۔ پاکستان میں نہ سہی اگلے جہاں میں تو انصاف ملے گا۔ہر مسلمان حکمران پر یہ فریضہ اللہ اور اللہ کے رسول ؐکی طرف سے عائد کردہ
قران میں قیامت تک کیلئے درج ہے ؛ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان نظام عدل قائم کروں۔‘‘ یہ سورہ شوریٰ کی پندرہ نمبر آیت ہے۔ پاکستان بننے سے آج تک انگریز کا کالوں کیلئے کالا قانون مقدس کتاب سمجھ کر اپنا لیا گیا۔ مقننہ میںاہلیت ہی نہیں کہ اس نظام کو بدل سکے۔ یہ امراء کا کاروباری پراجیکٹ ہے۔ جو خوب چلتا ہے۔ مققنہ میں صرف امراء ہیں۔ حکومت میں صرف امراء جا سکتے ہیں۔ اسمبلی کی اکثریت امراء پر مشتمل ہے۔ غریب عدالتوں کے پھیرے لگا لگا کر مر جاتا ہے۔بلوچستان کے جس اسمبلی ممبر نے چوک پر کھڑے سپاہی پرگاڑی چڑھا کے مار دیا تھاوہ باعزت بری ہو گیا ہے۔ انصاف کے علمبردارو! کل خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ عبرت حاصل کرو اے آنکھوں والو! مجھے عوام کی بے حسی کا بھی گلہ ہے۔ جو گاڑیاں مظلوم ماں پر ظلم ہوتے ہوئے موٹر وے سے گزرتی رہیں وہ کیوں نہیں رکے؟ جس نے دیکھا وہ شور بھی مچا دیتا تو شاید یہ مظلوم خاندان بچ جاتا! ہم اتنے خود غرض کیوں ہو گئے ہیں؟ کیا مغرب میں یہ واقعہ ہوتا تو لوگ ایسے ہی گزر جاتے؟میںنے اپنی ہی گلی میں ایک بیٹے کو دیکھا وہ باپ کو پیٹ رہا تھا۔ میں نے شور مچایا تو وہ کہنے لگا یہ ہمارا اپنا مسلہ ہے میں نے کہا نہیں یہ معاشرے کا
مسلہ ہے۔ رک جاؤ ورنہ پولیس کو بلاؤں گی۔ باپ بیچارہ بچ گیا۔ ایک ایر ہوسٹس کی پٹائی آدھی رات کو اس کا سر تاج کر رہا تھا۔ میں نے گھر والوں سے کہا چلو اس کو روکتے ہیں وہ کہنے لگے یہ اس کا ذاتی مسلہ ہے ۔ میں نے کہا نہیں۔ شور کی آواز پر معاملہ تھم گیا۔ لوگو! حکمران کچھ کرنے والے نہیں، پولیس اور عدالت عدل و انصاف نہیں دیتی۔ خود ہی ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اللہ تمھارا حامی و ناصر ہے۔