دو طرفہ بورڈ
محرم کے دنوں میں جب مسلم دنیا واقعہ کربلا کی یاد میں نڈھال ہوتی ہے اور حسینی قوتوں کو یزیدی قوتوں کے مقابلے میں متحد کرنے پر زور ہوتا ہے ۔ امن امان اور بھائی چارہ کی فضاء اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش ہرسطح پر ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں کچھ غیر سنجیدہ ، خود غرض ، امن و اخوت کے دشمن سوشل میڈیا پر متنازعہ اور نفرت انگیز مواد پوسٹ کر کے معاشرے کو نفرت کی وادی میں دھکیلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ کیونکہ سماجی اور تمدنی سوچ ہمارے دماغ میں تو موجود ہے مگر دل میں نہیں۔ فطرت انسانی میں شر کا جزو نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور دل اس کا حامی رہتا ہے۔ ہمارا رویہ ، تحریریں اور تقریریں اس انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہوتی ہیں۔ جس کا طعنہ مغربی دنیا ہمیں دیتی ہے کہ ہم انتہا پسند اور تنگ دل قوم ہیں۔ یہ رجحان علم و فکر کے ارتقاء پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک طبقہ اپنی رائے قائم کر کے اسے حرف آخر سمجھتا ہے۔ وہ اس بات کا روادار نہیں کہ اس پر تنقید ہو۔ اس روش سے معتدل رویے پروان چڑھنا بند ہو جاتے ہیں۔ معاشرے میں بیزاری کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ فرقہ واریت پھیلتی اور اجتماعیت کمزور ہوتی ہے۔ جس سے باہمی احترام اور برداشت کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔ یہ نظریات صحت مند سوچ کے لئے مضر رساں ہیں۔جو معاملا ت کو اعتدال کی راہ سے ہٹا کر بے شمار مشکلات کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے اسے سمجھنے کی کوشش کی بجائے غلط قرار دے دیتے ہیں۔ جس دن ہم نے ٹھنڈے دل سے یہ تسلیم کر لیا کہ سامنے والا غلط نہیں بلکہ اس کی سوچ کا زاویہ ذرا مختلف ہے اسی دن آدھے جھگڑے اور اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ اختلاف رائے زندہ قوموں اور صحت مند رجحانات کی علامت ہے۔ شرط یہ ہے کہ ادب اور اخلاق کے دائرے میں رہا جائے۔ دنیا میں صرف 10فیصد جھگڑے اختلاف رائے کی وجہ سے ہوتے ہیں باقی 90فیصد اس انداز اور لہجے کی وجہ سے ہوتے ہیں جو بحث میں اختیار کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرستی اور گروپ بندی انسان کو ضدی ، احمق اور غیر لچکدار بنا دیتی ہے۔ غیر لچکدار رویہ ہو یا جسم دونوں ہی بنے بنائے کھیل کو بگاڑ دیتے ہیں۔ ممتاز مفتی کیـ" تلاش" میں تحریر ہے کہ شولری یا شجاعت کا دور تھا یعنی سورمائوں کا دور تھا" ۔سڑک چل رہی تھی اسلحہ سے لیس گھوڑ سوار آجا رہے تھے۔ سڑک پر ایک دو طرفہ بورڈ آویزاں تھا۔ ایک سورما بورڈ کو دیکھ کر رکا اور بولا واہ کیسا خوبصورت نیلے رنگ کا بورڈ ہے۔سامنے سے ایک اور سورما آ گیا اور بولا واقعی بہت خوبصورت بورڈ ہے مگر اس کا رنگ تو سرخ ہے۔ پہلا بولا "ہم کہتے ہیں اس کا رنگ نیلا ہے دوسرے نے کہا اس کا رنگ سرخ ہے" پہلے نے کہا "تم ہماری توہین کر رہے ہو، نکالو تلوار!دونوں سورمائوں نے تلواریں نکالیں اور ڈوول (Dual)کے لئے تیار ہو گئے۔ ڈوول میں زندہ بچ جانے والا فاتح کہلاتا ہے۔ اتنے میں ایک بوڑھا سیانا وہاں آپہنچا۔ بولا"بھائیو کس بات پر ڈوول کرنے لگے ہو؟۔ پہلا بولا اس شخص نے ہماری توہین کی ہے ۔ کیسے؟ بوڑھے نے پوچھا۔ ہم کہتے ہیں یہ بورڈ جو سڑک پر آویزاں ہے نیلے رنگ کا ہے۔ دوسرا بولا ہم کہتے ہیں بورڈ سرخ رنگ کا ہے۔ بوڑھا بولا۔آئو دیکھیں بورڈ کا رنگ کیا ہے؟۔انہوں نے دیکھا بورڈ پر ایک جانب سرخ رنگ کیا ہوا ہے اور دوسری جانب نیلا"ہمارے ہاں بیشتر جھگڑے اسی بات پر ہوتے ہیں ۔ کبھی کسی نے بورڈ کی دوسری جانب دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے اختلافات فروعات پر مبنی ہیں۔اہل بیت سے محبت کرنا کسی ایک مسلک سے مخصوص نہیں ہے۔ یہ محبت تو ایمان کا حصہ ہے۔ رسول پاک ﷺکا فرمان ہے "جس نے میری اولاد میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور میری اولاد کا کوئی فرد غربت کی وجہ سے اس کا بدلہ نہ دے سکا تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے صلہ دوں گا"یہی تلقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اہل بیت سے محبت سیکھو اس کے بغیرنہ ایمان مکمل ہے نہ زندگی اور نہ ہی راستہ طے ہو گا۔ فرمان رسول پاک ﷺہے "میں تم میں دو چیزیں بڑی بھاری چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر ان کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو گمراہ نہیں ہو گے اور مجھ سے آملو گے۔ایک میری کتاب اور ایک میرے اہل بیت"۔اگر اہل بیت سے پیار نہیں تو ایمان کیسا۔ہمارے ہاں اپنے پیرو کاروں اور نئی نسل کی ذہن سازی اس انداز سے ہو رہی ہے کہ بد قسمتی سے وہ اسلام کی بجائے صرف مسلک سیکھ رہے ہیں۔ ان میں مذہب کو سیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف ری ایکشن پیدا ہو رہا ہے۔ جذباتیت کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مسلک سیکھنے ، سمجھنے اور اپنانے میں کوئی قباحت نہیں مگر دوسرے مسالک کا بغور مطالعہ اور تجزیہ کر کے رائے دینا سیکھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔کوئی بھی مسلک اپنانا آپ کا حق ہے اور آپ اس میں آزاد ہیں ۔ مگر اپنا مسلک دوسرے پر ٹھونسنا جرم ہے۔ اختلاف کو دشمنی اور مخالفت کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ اسے رحمت اور مفید رویے کے تناظر میں دیکھا جائے۔(جاری ہے)