قیام پاکستان سے ابتک ہر وقت یہی سنتے آئے ہیں کہ ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہا ہے، ملک کو مشکل ترین حالات کا سامنا ہے، ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ جملے اتنا دہرائے گئے ہیں کہ ان پر شیر آیا شیر آیا والی مثال بالکل صادق آتی ہے۔ اب کوئی کتنا بھی کہتا رہے سننے والے اتنے عادی ہو چکے کہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ایسی باتیں صرف وقت گذاری کے لیے ہیں۔ یہ جملے اتنا دہرائے گئے ہیں کہ ملک و قوم کو حقیقی خطرات درپیش ہوں تو بھی عوامی سطح پر مشکل یا برے حالات پر وہ ردعمل سامنے نہیں آتا جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ وہ اتحاد نظر آتا ہے حالات جس کا تقاضا کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تو ہر قسم کے حالات میں یہی سننے کو ملتا ہے کہ ہم یہ بچپن سے سنتے آ رہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ہم یہ سنتے سنتے بوڑھے ہو گئے، کوئی کہتا ہے یہ سنتے سنتے بہتر سال ہو گئے ہیں۔ ہم نے کبھی استحکام دیکھا ہی نہیں ہے۔ کبھی معاشی عدم استحکام کا شکار رہے ہیں تو کبھی سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہا ہے۔ کبھی مذہبی عدم استحکام جیسی نازک صورتحال کا مقابلہ کرتے رہے۔ اب تو عدم استحکام ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے اور کہیں خوش قسمتی سے استحکام کی امید یا آثار نظر آتے ہیں تو ہم خود الٹی سیدھی حرکتوں سے اسے عدم استحکام میں بدلنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ ہم اس کے بغیر رہنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاستدان، رہنما، طاقتور اور اقتدار رکھنے والے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مصنوعی عدم استحکام پیدا کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مصنوعی مہنگائی پیدا کی جاتی ہے۔ چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے، ادویات کی مصنوعی کمی ظاہر کی جاتی ہے ایسے ہی معاملہ ہمارے ہاں استحکام اور عدم استحکام کا ہے۔ موجودہ حکومت کو کمزور معیشت ورثے میں ملی۔ اس کمزور معیشت کے ساتھ ساتھ حکومت کو خطے میں خراب صورتحال کا بھی سامنا تھا۔ روز اول سے ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خطے میں بدلتی صورتحال اور بھارت کا جنگی جنون بڑے اور نازک مسائل ہیں۔ رواں سال فروری میں بھارت نے جنگ کی کئی کوششیں کیں ابھینندن کے طیارے کے گرائے جانے کے بعد بھی پاکستان نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا ورنہ اب تک کئی چیزیں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہوتیں اور دنیا کا نقشہ بھی بدل چکا ہوتا۔ اعصاب شکن حالات میں پاکستان کا کردار ایک ذمہ دار ملک رہا ہے۔ بدقسمتی سے نازک صورتحال کے باوجود ہم اندرونی طور پر تقسیم رہے۔ بالخصوص اپوزیشن جماعتوں کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حالات کسی کے پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ یہ حقیقی مسائل ہیں لیکن بڑی جماعتوں کے نمایاں سیاستدان عدم استحکام پیدا کرنے کی عادتوں میں اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ انہوں نے حقیقی مسائل پر بھی قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے قوم کو متحد کرنے کے بجائے منتشر اور تقسیم کرنے میں ہی اپنا فائدہ جانا ہے اور اسی ڈگر پر چلتے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انیس سو سینتالیس سے لے کر اب تک ہم مشکل اور نازک حالات سے گذر رہے ہیں۔ ان تک مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، آج تک مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، آج تک مصیبتوں کا شکار ہیں۔ ہمارے سیاستدان قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے اپناتے، بڑی سوچ کے ساتھ، ذاتی فائدوں کو نظر انداز کر کے فیصلے کرتے تو آج ہم عدم استحکام کا شکار نہ ہوتے۔ بدقسمتی سے کشمیر کے مسئلے پر بھی ہماری اپوزیشن اپنے فائدے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازعہ ہے اس وقت کشمیر کی وجہ سے پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر ہیں۔ کسی بھی وقت جنگ لگ سکتی ہے۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے کل ہی آزاد کشمیر پر قبضے کی بھی بات کر دی ہے۔ بیالیس روز ہو چکے کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا ہے۔ بھارت کشمیر کی حیثیت بدلنے کے بعد علاقے سے مسلمانوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے درپے ہے اور ہمارے سیاستدان پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں کرپشن کو بچانے کے لیے شور مچا رہے ہیں، کہیں کوئی صوبائی سیاست کو ڈھال بنا رہا ہے تو کہیں مذہب کو استعمال کر رہا ہے۔ انہی رویوں نے ہمیں اس نہج تک پہنچایا ہے کہ بہتر برس گذرنے کے باوجود بھی ہم بغیر سمت کے سفر کیے جا رہے ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی اور ہمارے سیاستدان آج بھی ذاتی مفادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہی ہمارے عدم استحکام اور ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف دو ممالک ہی نہیں دنیا بھر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیا ایسے وقت میں بھی ہماری سیاسی جماعتوں کو متحد نہیں ہونا چاہئیے، کیا مسئلہ کشمیر صرف پاکستان تحریک انصاف کا ہے، کیا ایسے نازک وقت میں بھی ذاتی مفادات کو فوقیت دی جانی چاہیے، کشمیر کو سیاست کی نذر کر کے ہم ملک و قوم کی کون سی خدمت کر رہے ہیں۔ بیرونی دنیا پاکستان کے موقف کی حمایت میں آگے بڑھ رہی ہے اور اپنے لوگ ذاتی مسائل کو لیے بیٹھے ہیں۔
آج لاک ڈاؤن بیالیسویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اعدادوشمار جو کہ یقینا حقائق سے کوسوں دور ہیں ان کے مطابق بھی بیالیس روز میں چار ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ لگ بھگ پچیس سو افراد کو تفتیش کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ دو سابق وزرائے اعلیٰ سمیت دو سو سے زائد سیاست دان گرفتار کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک سو سیاست دانوں کا تعلق حزب اختلاف سے ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تیرہ پولیس اسٹیشنز کی حدود سے تقریبا ایک ہزار افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ سرکاری رپورٹ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ بارہ سو سے زائد گرفتار افراد قانونی حق سے محروم ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہونے والے ہزاروں افراد پر پبلک سیفٹی کے کالے قانون کا اطلاق بھی کر دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے سخت کرفیو کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی اقدامات سے علاقے میں خوف ہراس کی فضا شدید تر ہو گئی ہے۔ مواصلاتی رابطے منقطع کرنے، کرفیو کے نفاذ اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری سے حالات شدید خراب ہوئے ہیں۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ احسن کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن سے معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے ان بیالیس روز میں معیشت کو چالیس ارب کا نقصان ہوا ہے۔ سیاحت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
قارئین کرام یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ جو کہ حقیقت سے بہت مختلف ہیں ان حالات میں بھی ہم ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے رہیں گے تو کبھی خود کو بدل نہیں سکتے۔ ہمیں قومی مسائل پر قومی اتفاقی رائے کو اہمیت دینے کی عادت اپنانا ہو گی۔ بہتر برس گذر گئے ہم اور کتنا وقت ذاتی مفادات کی حفاظت میں ضائع کریں گے۔ کشمیر جیسے مسئلہ پر بھی ہمارا تقسیم بیانیہ اجتماعی بے حسی کی المناک داستان ہے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہماری سمت درست فرما دے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024