عمران خان نے خود کہا ہے کہ میں کشمیر کا سفیر ہوں۔ اب ساری قوم اور ساری دنیا والے بھی انہیں کشمیر کا سفیر کہہ رہے ہیں۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی کشمیر کا سفیر ہے۔
کسی زمانے میں کشمیر کے لئے اس طرح بات نہیں ہوئی۔ اتنا چرچا کبھی نہیں ہوا بلکہ جو ہوا ہے وہ سب عمران خان کے چرچے کے سامنے ماند ہے۔
مولانا فضل الرحمن ہمیشہ عمران خان کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی سیاست یہی ہے کہ عہدے حاصل کئے جائیں اور عشرت ہو وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی بنائے گئے تھے۔ یہ بے جا نوازش نوازشریف نے کی تھی۔ اُن کا نام نوازشریف بھی ٹھیک ہے مگر نام بندہ نواز ہونا چاہئے تھا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ فلاں میرا بندہ ہے۔
اب جو کچھ تذکرہ اورچرچا کشمیر کے لئے ہوا ہے تو یہ عالم اسلام اور سارے عالم میں مشہور ہوا ہے اور انڈین مودی بدنام ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہوا ہے جب یو این او کا اجلاس ہوتے ہوئے دنیا کے لیڈر وہاں آئیں گے۔ وہ ابھی سے کشمیر کے لئے باخبر ہو گئے ہونگے۔
عمران خان نے جو کچھ کشمیر کے لئے کہہ دیا ہے بلکہ کر دیا ہے تو لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر عمران خان کے دور حکومت میں ہی حل ہو جائے گا۔ عمران خان نے خوب کہا ہے کہ ’’مودی سُن لو جس طرح میں نے آزاد کشمیر مظفر آباد میں کشمیریوں کے جلسے میں کہہ دیا ہے۔ تم ایسا جلسہ سرینگر مقبوضہ کشمیر میں کر کے دکھاؤ اور خطاب کر کے دکھاؤ۔
مودی تو سرینگر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ کرفیو لگوایا مگر پھر بھی وہاں جا نہیں سکتا۔ جبکہ کشمیری ہر روز کرفیو توڑتے ہیں اپنے شہر میں پھرتے ہیں۔
دوسری بڑی بات جو عمران خان نے کی ہے وہ یہ ہے کہ مودی بزدل آدمی ہے۔ بزدل آدمی ظالم ہوتا ہے۔ جو ظلم و ستم کشمیر میں مودی کروا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بڑا عذاب نہیں ہو سکتا مگر ظلم سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔بلکہ بڑھتا ہے اور پھر مٹ جاتا ہے۔ تاریخ عالم میں ہمشہ مظلوم جیتے ہیں اور ظالم ہارے ہیں۔ یزید کا لفظ ظالم کے لئے مخصوص ہوا ہے۔ برادرم اکرم چوہدری نے یہ لفظ مودی کے لئے عام کیا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کوئی مسلمان کرے یا کافر کرے وہ یزید ہے۔ اور جہاں یزید ہو وہاں کوئی نہ کوئی حسینی جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں نکلتا ہے۔
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ایک اور تحریک انڈین حکومت کے خلاف چلے گی اور پھر وہ آزادی کی تحریک بن جائے گی۔ اب بھی وہاں کے جلسے یا جلوس میں جو نعرہ لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں جواب آتا ہے۔ آزادی۔
یہ آزادی کی تحریک ہے۔ اسی تحریک میں ظلم ہوتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی آزادی کی تحریک چلی ہے تو وہ ناکام نہیں ہوئی۔ کامیابی آزادی کے متوالوں کی ہوتی ہے۔ بظاہر ہار بھی جانے کے بعد بھی فتح ہمیشہ مظلوموں اور آزادی کے دیوانوں کی ہوتی۔
دنیا میں حسینؓ سے بڑا کامیاب کون ہے۔ انہوں نے میدان میں اپنا سب کچھ لٹا دیا مگر سب سے زیادہ سرخرو وہی ہوئے۔ صرف وہی ہوئے۔ وہ آزادی اور قربانی کا استعارہ بن گئے ہیں۔ آج تک ان کی یاد میں رونے والوں کی دنیا آباد ہے۔ یہ آنسو بم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں اتنے برس گزر گئے حسینؓ کی یاد باقی ہے بلکہ جاری و ساری ہے۔
میرے خیال میں رونا عبادت ہے۔ رونے سے دل کا بوجھ مٹ جاتا ہے۔ آدمی نئے جذبے سے ہمکنار ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ رونے والے ہمارے رسول کریمؐ ہیں۔ وہ تو عمر بھر ہنسے نہیں تھے مگر ہمیشہ مسکراتے تھے۔ مسکراہٹ کسی چہرے کی اس طرح زینت نہیں بنی ہو گی مگر وہ روتے تھے اور کہتے تھے۔ لوگو رو دیا کرو‘‘ رو نہیں سکتے ہو تو روتے ہوئے لوگوں جیسی شکل بنا لو۔
میدان میں لڑنے والوں کا لہو بہت طاقتور ہے مگر اُن کے گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کے آنسو کم طاقتور نہیں ہیں۔ لہو ایک دلدل بناتا ہے جس میں دشمن پھنس کر اور دھنس کر رہ جاتے ہیں مگر آنسو سب کچھ بہا کے لے جاتے ہیں۔ کئی لمحے زندگی میں آتے ہیں کہ جو کچھ آنسو کر جاتے ہیں وہ لہو نہیں کر سکتا۔ جو کچھ ہمت کر دی ہے یہ عمران خان کا کمال ہے مگر کشمیری خواتین و حضرات کے آنسو مودی کا سب کچھ بہا کے لے جائیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024