عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن کب تک؟
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کمیونی کیشن جیری رائس نے کہا ہے کہ پاکستان کو مالی خسارہ کم اور زیادہ ٹیکس جمع کرنا ہوگا۔ دریں اثنا عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کی رپورٹ کے مطابق دو سال میں شرح سود ساڑھے سات فیصد بڑھی ہے اور حکومتی بانڈز کی شرح سود بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شرح سود بڑھنے سے مقامی قرضوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔
ہماری معیشت کو اس حد تک پہنچانے میں جہاں ہماری حکومتوں کی نااہلیوں کا ہاتھ ہے‘ وہاں عالمی مالیاتی اداروں کے غیرسودمند مشوروں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان اداروں کے ڈکٹیشن نما احکام اور انکے ناروا قرضوں کے باعث ہی ہمیں مالی خسارے کا سامنا ہے۔ ٹیکسوں کا سارا بوجھ عام آدمی کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ یہ تو ماضی کی حکومتوں کو سوچنا چاہیے تھا اور موجودہ حکومت کو بھی کہ خودمختار ملک کیلئے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لینا ناروا ہے۔ معیشت کا دارومدار صنعتی اور زرعی برآمدات پر ہوتا ہے۔ اگر ترسیلات کا سہارا بھی نہ ہوتا تو ملک کا کیا بنتا؟ صنعتوں اور زراعت کو ہمارے بعض نااہل حکمرانوں نے خود تباہ کیا۔ ہم دنیا کے چند ان ممالک میں شامل ہیں جنہیں قدرت نے سازگار موسم‘ زرخیز زمین اور آبپاشی کیلئے پانی عطا کر رکھا ہے مگر ہم اپنی نااہلیوں کے باعث گندم‘ کپاس‘ چاول اور چینی کیلئے عالمی مارکیٹوں سے محروم ہوتے گئے۔ یہی حال ہم نے صنعتی شعبے کے ساتھ کیا۔ بعض حکومتوں نے صنعت کاروں کے ساتھ حریف سیاست دانوں جیسا سلوک کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے کارخانے اور فیکٹریاں بند کر دیں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کرلیا۔ آج بھی اگر حکومت صنعت کاروں کے بارے میں رویے کو تبدیل کرلے اور انہیں یقین دلا دے کہ اگر وہ اپنی صنعتوں کو وطن منتقل کردیں تو انہیں عزت و احترام اور مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا اور ان سے ہر قسم کا تعاون کیا جائیگا۔ اس طرح اگر ساری نہیں تو اتنی مشکلات کم ہو جائیں گی کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں کے دبائو سے نکل جائینگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ ہمارا معاشرہ شروع سے ہی ٹیکس مائنڈڈ نہیں بن سکا‘ برسوں تک حکومت لگان‘ ریلوے اور ڈاک خانوں کی آمدنی پر چلتی رہی۔ اب فوری ضرورت یہ ہے کہ ٹیکسیشن نظام کو کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت لایا جائے‘ پکڑ دھکڑ سے کام مزید خراب ہوگا۔ ملکی مالیاتی اداروں کے کارکنوں اور اہلکاروں کو ہر آدمی کے پاس خود پہنچنا چاہیے۔ اسے قابل احترام شہری سمجھتے ہوئے آگاہ کیا جائے کہ اس کو کتنا ٹیکس ادا کرنا ہے۔ اگر ایک دفعہ یہ نیٹ ورک بن گیا تو ملک کی تقدیر بدل جائیگی۔