آ گیا ہے اک نیا ہٹلر یہاں
بھارتی وزیراعظم نریندری مودی نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے بعد اپنی افواج اور پولیس کو جو ظالمانہ ذمہ داریاں سونپی ہیں اور گزشتہ ایک ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔ نریندر مودی کے ان ظالمانہ اقدامات سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ پوری دنیا میں مودی کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی جا رہی ہے دنیا کے بہت سے مغربی ممالک میں مودیانہ ظالمانہ پالیسی کے خلاف مظاہرے کئے جا رہے ہیں۔ تین ستمبر کو لندن میں ایک بڑا مودی مخالف مظاہرہ ہوا جس میں پندرہ ہزار افراد شریک ہوئے۔ ان میں کشمیریوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن ان کے ساتھ ساتھ برطانوی شہری اور برطانوی ارکانِ اسمبلی میں شریک ہوئے۔ اور یہ اعلان کیا کہ اگر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو ختم نہ کیا تو مظاہروں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مظاہرے میں شریک نوجوانوں نے راستے میں نصب گاندھی کے مجسمے کے ہاتھ میں کشمیر کا پرچم تھما دیا۔ اور پھر دھویں کے گولے بھی چلائے گئے۔ اس زبردست مارچ میں ہزاروں کشمیریوں کے ساتھ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور پی پی آئی کشمیر ے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ مظاہرین نے گو مودی گو۔ مودی کشمیریوں کا قاتل، مودی دہشت گرد کے نعرے لگاتے ہوئے یہ اعلان بھی کیئے کہ بھارتی غاضبو کشمیر ہمارا چھوڑ دو۔ کشمیر کشمیریوں کا ہے۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دو۔ اس مظاہرے میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ اِسی مظاہرے میں تمام مظاہرین کی اکثریت نے آزاد کشمیر کے پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ اور کشمیریوں کو حق خودارادیت جیسے ملک شگاف نعرے لگائے جا رہے تھے۔ مظاہرے کی روشنی میں برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومیسٹک راب اظہار خیا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بھارت کو بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کو یو این او کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے۔سعودی عرب اور متحدہ امارات کے وزرائے خارجہ چار ستمبر کو پاکستان کے دورے پر آئے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعظم عمران خان سے خصوصی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھارتی وزیراعظم مودی کی مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ فوجی کارروائیوں کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ دونوں وزرائے خارجہ نے مودیانہ اقدامات کی مذت کی اور اعلان کیا کہ وہ اپنی حکومتوں کو مودیانہ مظالم سے آگاہ کریں گے اور پاکستان کی حمایت کا اعلان کروائیں گے۔ اس ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے دونوں وزرائے خارجہ کو بھارت کی طرف سے جعلی فلیگ آپریشن کے خطرناک ارادے سے بھی آگاہ کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے سعودی اور امارتی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور علاقے میں پاکستان کی طرف سے کی جانے والی امن اور استحکام کی کوششوں کا اعتراف کیا۔ دونوں وزرائے خارجہ نے بھارتی اقدامات کی شدید مذمت کی۔ وزیر خارجہ نے اس ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب اور امارات کی حمایت سے متعلق ابہام دور ہو گیا ہے۔ اور اس مسئلے پر سعودی عرب اور امارات کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم کا تعاون بھی حاصل ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک خصوصی اجلاس طلب کرنے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی رپورٹ کے مطابق 1999ء سے 2018ء تک چورانوے ہزار چھ سو پچاس کشمیری قتل کیئے گئے۔ بھارتی فوج نے گیارہ ہزار بیالیس کشمیری عورتوں کا گینگ ریپ کیا اور ہزاروں نوجوانوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیا۔ اقوام متحدہ سے مطالبہ ہ کہ وہ فوری طور پر کشمیر میں اپنی امن کمشن اور امن افواج بھیجے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کے تمام ممالک کو مشترکہ پالیسی بنانا ہو گی۔ سابق وزیر خارجہ رحمان ملک نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا کو ان قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا پڑے گا۔ مسئلہ کشمیر حل کیئے بغیر دنیا میں امن کی کوششیں رائیگاںچلی جائیں گی۔ افواج پاکستان کے کمانڈرانچیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ کسی بھی مذہب میں کسی کا حق مارنے کی گنجائش نہیں۔ اخلاقی قوت فوجی قوت سے بہت زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ مغربی ممالک کے علاوہ چین، ترکی، ایران، بنگلہ دیش، افغانستان کے علاوہ بہت سے دوسرے مسلمان ممالک نے بھی بھارت کو دہشت گرد قرار دے دا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اب آتے ہیں میجر جنرل آصف غفور کے دلیرانہ بیان کی طرف۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات خطے میں ایک بڑی ایٹمی جنگ کی علامت ہیں۔ کشمیر کے علاوہ ہندوستان میں 22 کروڑ مسلمانوں کے حالات بھی بہت برے ہیں۔ سکھ عیسائی، دلت اور دوسری اقلیتیں بھی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ پورے ہندوستان میں ہندوازم کو پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ وہی نظریہ ہے جہاں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے اور نہ ہی کسی قسم کی سماجی یا معاشرتی آزادی حاصل ہے۔ یہ سب نازی ازم کا اعادہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ میںمودی حکومت پنڈت نہرو کے نظریئے سے بھی منہ موڑ چکی ہے۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جتنی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے تکلیف اٹھائی ہیں۔ بھارت کو اسسے دو گنا زیادہ تکالیف اٹھانا پڑیں گی۔ مودی انتہا پسند سوچ کے مالک اور ہٹلر کے پیروکار ہیں۔
مودیانہ سوچ دیتی ہے گماں
آ گیا ہے اک نیا ہٹلر یہاں