روہنگیا مسلمان اور عالمی دنیا
ریاست رکھائین (سابقہ اراکان)میانمار کی سرحدی پٹی پرواقع ریاست ہے ۔ اس ریاست میں دو تہائی آبادی بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جبکہ ایک تہائی آبادی مسلمان ہے ۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو یہ ریاست اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کی تاریخ دل دہلا دینے والی ہے ۔ برمی افواج نے 1785ء میں ریاست اراکان کو فتح کیا اوراسے برما کے صوبہ مہامتی میں ضم کر دیا گیا۔ 1989ء میں باقاعدہ پلانگ کے تحت اس علاقہ میں بدھ مذہب رکھنے والوں کو آباد کیا گیا ۔ بعد میں معاہدہ پنڈبو کے مطابق ریاست اراکان کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا ۔ 1948ء میں تاج برطانیہ سے آزادی کے بعد اس ریاست کو برما (حالیہ میانمار ) کا حصہ بنا دیا گیا ۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کو روہنگیا کا نام دیا گیا ۔یہ وہ مسلمان تھے جو 700سال پہلے میانمار میں بنگال سے آئے اور یہاں آباد ہو گئے ۔یہاں تک کہ روہنگیا مسلمانوں آبادی کا تناسب اس ریاست میں 70 فی صد تک پہنچ گیا ۔
جنگ ِ عظیم کے بعد بدھ مذہب کو میانمار کا سرکاری مذہب قراردئیے جانے اور بدھ مذہب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کے آغاز نے روہینگیا کو ایسی اقلیت بنا دیا جسے کوئی ملک اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں ۔ بنگلہ دیش انھیں میانمار کا شہری قرار دیتا ہے جبکہ میانمار میں وہ بنگالی مہاجرین کے طور پر آباد ہیں ۔1950ء میں پہلی بار روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے بغاوت کا آغاز کیا ۔
2014 ء کی مردم شماری میں روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی کہا گیا اور ان کو میانمار کی شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا ۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ میانمار کا آئین برائے شہریت میں موجود شقوں میں روہنگیا شامل نہیں ۔1982ء میں کم و بیش میانمار میں بسنے والے ہر رنگ و نسل کے باشندے کو شہریت دے دی گئی تاہم روہنگیا اس شہریت سے محروم رہے ۔ 2012ء میں اس قانون کو مزید سخت کر دیا گیا اور روہنگیا مسلمانوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ۔ یہ لوگ ہجرت کرکے بنگلہ دیش میں داخل ہوئے ۔ یہ ہجرت 1987ء، 1991ء سے 1992ء ، اور 2015ء سے آج تک جاری ہے ۔ حالیہ برس میں کم وبیش چار لاکھ بیس ہزار افرا د نے بنگلہ دیش کی جانب ہجرت کی اور اب یہ لوگ مہاجر کیمپوں میں گزر بسر کر رہے ہیں ۔
2015 ء کے بعد میانمار افواج، جسے حکومت میانمار کی تائید حاصل ہے، نے روہنگیا میںگائوں اور دیہاتوں پر مسلح حملوں کا آغاز کیا۔ ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا اور چشم ِ فلک نے دیکھا کہ پورے پورے دیہات ، کالونی یا گائوں کے گھروں کو انسانوں سمیت جلا دیا گیا یا انھیں ایک ہی بار قتل کر دیا گیا ۔ نسل انسانی نے اس قسم کی نسل کشی کا نظارہ پہلے نہ دیکھا تھا ۔ روہنگیا مسلمان دنیا کی وہ واحد اقلیت ہیں جو سب سے زیادہ نسل کشی کا شکار ہوئے ۔اس نسل کشی میں میانمار کی افواج اور حکومت نہ صرف شامل ہیں بلکہ ان تمام کاروائیوں کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارہ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ (شائع کردہ جولائی 2018ء) میں چشم کشا ء حقائق بیان کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں میانمار افواج کے سربراہ اور دیگر جرنیلوں کو مسلم کشی کا کردار قرار دیتے ہوئے عالمی عدالت انصاف سے کاروائی کی گذارش کی گئی ہے۔نیویارک ٹائمز ( 20جون 2013ء) میں شائع ہونے والے مضمون میں میانمار کے بدھ بگھشوئوں کو مسلم اقلیت کے خلاف اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے ۔ بدھ بھگشو ، آسن ویراٹھو مسلمانوں کے خلاف بدھ مذہب کے پیرو کاروں میں نفر ت بھڑکاتی رہتی ہے ۔ اس کے اکثر بیانات مسلمان دشمنی پر مبنی ہوتے ہیں اور انھی بیانات کے بعد مسلمان آبادیوں پر مسلح حملے کیے جاتے ہیں ۔ ان حملوں کو حکومت کی باقاعدہ تائید حاصل ہوتی ہے ۔آنگ سان سوئی کی ، میانمار کی حکمران جن کو امن کا نوبل انعام بھی مل چکا ہے، کو اقوامِ عالم کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
روہنگیا مسلمان دو طرفہ اذیت کا شکار ہیں ۔ ایک جانب تو موت کا آفریت ان کی گردنوں میں پنجے گاڑے ان کے خون کا پیاسا ہے تو دوسری طرف مصائب و الم کا ایک صحرا ۔ وہ روہنگیا مسلمان جو کسی بھی طرح میانمار افواج سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ان میں اکثر و بیشتر بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان موجود دلدلوں میں پھنس کر جاں بحق ہو گئے ۔ مہاجروں میں سے 20 فی صد کے قریب ہی لوگ بنگلہ دیش پہنچ سکے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ مہاجر کیمپوں میں نہ تو یہ بچے محفوظ ہیں اور نہ ہی عورتیں ۔ان بچوں کے لیے کسی قسم کا کوئی سکول نہیں جبکہ متعدد خواتین اور لڑکیاں جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں ۔
واضح رہے کہ عالمی حقوق انسانی کے ادارے اوراین جی اوز روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں لیکن عملی سطح پر میانمار کی حکومت کوئی عملی اقدامات نہیں کر رہی اور نہ ہی بدھ انتہا پسند وں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی ہے ۔ عالمی برادری کی مصالحت کی کوششوں کے بعد بنگلہ دیش نے اپنی سرحدیں ان مہاجرین کے لیے کھول تو دی ہیں لیکن ان کی آبادکاری کا کوئی انتظام نہیں ہو سکا ۔ یہ لوگ مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔