جانے والوں کو کون کہاں روک سکا ؟
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی ، موت کا وقت مقرر ہے اسے کوئی روکنا بھی چاہے تو ممکن نہیں ۔ کسی کو معلوم نہیں کہ موت کب اور کہا ں آئے گی ؟ دنیا میں مہنگے سے مہنگے ہسپتال اور ڈاکٹروں کی خدمات حا صل کی جاتی ہیں لیکن موت کو کون ٹال سکا جب آنا چاہتی ہے فورا آ جاتی ہے ۔امیر ہو یا قریب ،بادشاہ ہو یا غلام موت ہر کسی کو کسی جگہ بھی آسکتی ہے۔ ہمیں دولت اچھی لگتی ہے ۔ہر کوئی دولت اکھٹی کرنے میں تمام حربے استعمال کرتا ہے ۔ کبھی کبھی دولت کی خاطر انسان سے حیوان بھی بن جاتا ہے ۔ بڑے بنگلے ،بڑی بڑی لگثری گا ڑیاں ، ہیرے جوہرات ،پونڈ اور ڈالروں میں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں لیکن جب دنیا سے جاتا ہے تو کفن وہ بھی بغیر جیب کے ، پھر وہ منوں مٹی تلے چلا جاتا ہے ۔ دولت کسی کے کام نہیں آتی ۔ مرنے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جھنیں یہ کفن بھی نصیب نہیں ہوتا ۔ان میں کچھ وہ بھی بد قسمت ہیں جن کے پیچھے کوئی رونے والا نہیں ہوتا ۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہم ان واقعات سے عبرت نہیں سیکھتے اور مال و دولت کی خا طر رشتے توڑ دیتے ہیں …کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے کوئی خون کا رشتہ نہیں ہوتا لیکن دنیا سے رخصت ہونے سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ کلثوم نواز شریف کی وفات پر دلی صدمہ ہوا ۔ انتقال سے قبل بیماری کے دوران نواز شریف کے مخالف بعض سیاست دانوں نے ایسے بیانات دیئے جن پر افسوس ہی جا سکتا ہے ۔ مقام اطمینان ہے کہ چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے الفاظ کی معذرت کی کاش وہ ایسا بیان جاری نہ کرتے ۔کاش دوسرے لوگ بھی اعتزاز صاحب کی طرح بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ۔ اب تو سیاست ایشو پر نہیں الزامات پر کی جاتی ہے ۔جو زیادہ بد زبانی کرے گا ، پگڑی اچھالے گا اسے شہرت ملے گی۔ منفی سوچ کے حامل سیاست دان اب باز آجائیں،کچھ خدا کا خوف کریں جو دنیا سے چلا جائے خدا را اسے تو بخش دیا کرو
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے
کہ سجناں وی مر جانا اے
ایسی باتیں کرنے والے لوگ ذہنی مریض ہیں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ جو بات کہہ رہا ہوں اس کے رزلٹ کیا ہو نگے ؟ بغیر سوچے سمجھے جو جی میں آیا کہہ دیا ۔آئو ہم مرنے والے کو اچھے نام سے یاد کرنے کی عادت ڈالیں ۔ دعا کریں کہ اﷲ برے وقت سے ہم سب کو بچائے ، آج جو حالات میاں صاحب کی فیملی کو پیش ہیں اﷲ کریم انہیں اس صورت حال میں صبر کے گلاب عطا کرے رکھے ۔ میاں فیملی نے پانچ سال قبل یہ نہ سوچا تھا کہ کلثوم نواز جب دنیا سے رخصت ہونگی تو دونوں بیٹے اپنی ماں کو لحد میں اتارنے نہیں آئیں ۔ بیماری کے عالم میں بیٹی اور اپنے ابو کے ساتھ جیل میں ہو نگے۔ یہ سب کچھ ہو چکا ہے ۔منفی پرو پیگنڈاکرنے کے بجائے ان کے حالات سے سبق سیکھیں ۔ مرنے والا مر گیا مگر بہت سی یادیں چھو ڑ گیا ۔ ایسا ہی کچھ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ہوا ۔بہتر علاج کیلئے لندن لے جایا گیا ، سال سے زیادہ عرصہ تک کنسر جیسے مو ذی مرض سے جنگ لڑتی ہوئی زندگی کی بازی ہار گئیں ۔بیگم کلثوم نواز پڑھی لکھی گھریلو خاتون کے ساتھ سیاست دان بھی تھیں ۔ وہ مشہور پہلوان رستم زمان گاما کی نواسی تھیں شائد اس لئے دلیر تھیں نواز شریف پر جب برا وقت آیا تو لیڈر بن کر ابھریں ۔ تین سال تک مسلم لیگ ن کی صدر رہیں ۔ راقم کی پہلی اور آخری ملاقات کلثوم نواز شریف اور مریم نواز سے لاہور میں عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی بیٹی کی شادی کے موقع پر ہوئی تھی ۔ ہم اسلام آباد سے نعیم بخاری کے ساتھ لاہور پہنچے تھے ۔ہمارا شمار ان مہمانوں میں تھا جو سب سے پہلے وہاںپہنچے تھے ۔ ایسے میں بیگم کلثوم نواز شریف اور مریم کے ساتھ تشریف لائیں ۔ عاصمہ جہانگیر نے استقبال کیا ۔ بٹھایا اور پھردوسرے مہمانوں کو ویلکم کرنے میں مصروف ہو گئیں۔ بخاری صاحب نے کہا طلعت آپ کی لیڈر آئیں ہیں ۔ سلام دعا اور تعارف ہوا ۔ مریم سے کہا آپ اپنی امی کو سیاسی استاد مان لیں مشکل وقت میں میڈم نے پارٹی کی قیادت کو جس خوبصورتی سے نبھایا وہ آج بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ یہ سن کر مسکراتے ہوئے کہا اس میں میرا کوئی کمال نہیں تھا قدرت نے اور عوام نے امی کا ساتھ دیا ساتھ دیا ، میڈم کلثوم نے بتایا کہ وہ اہل راولپنڈی کا شکریہ ادا کرتی ہیں جو اس مشکل گھڑی میں شانہ بشانہ کھڑے رہے ۔ چوہدری تنویر کی میزبانی کو یاد کرتی رہیں۔ مریم نے کہا م کہ میرے والدین ہی میرے ٹیچر ہیں ۔ کہا ابو جب سیاست میں واپس آ جاتے ہیں تو امی گھریلو خاتون بن جاتی ہیں ۔ کہا اپنے بہین بھائیوں میں مجھے ہی سیاست کا شوق ہے ۔ اتنے میں مہمانوں کی آمد کا سلسلہ تیز ہو گیا ۔ میںاچھی یادوں کے ساتھ واپس اپنی سیٹ پر آ گیا ۔ کلثوم نواز گھریلو خاتون تھیں لیکن مشکل وقت میں سیاسی کردار ادا کرنے کی صلا حیت رکھتی تھیں ۔ میاں نواز شریف دوبارہ جب عملی سیاست میں آئے تو وہ بیوی اور بچوں کی ماں بن کر چار دیواری میں رہیں لیکن اس بار جب میاں نواز شریف کو سیاست سے آئوٹ کیا گیا تو ایک بار پھر سیاست میں قدم رکھا اور لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیتا مگر کینسر کی بیماری نے اسمبلی میں جانے کی مہلت نہ دی اور بیماری سے لڑتے لڑتے جہاں فانی سے کوچ کر گئی۔ اﷲ پاک کلثوم نواز کو جنت و فردوس میں جگہ دے ، اہل خانہ اور عزیزاقارب کو صبر دے ۔ امین
‘ چھیتی آیا کرو! کہہ کر رخصت کیا ۔