اللہ کریم کی شان…(1)
ہفتہ رات سائیں جی کا فون آیا ، حاضری میں کچھ زیادہ توفق پر ہلکا سا شکوہ تھا ۔میں بھی شرمندگی محسوس کررہا تھا تاہم اگلے ہی دن تمام مصروفیات ترک کرکے صبح تقریبا دس بجے خدمت میں حاضر ہو گیا ۔ ہمیشہ کی طرف شفقت و محبت سے پیش آئے اپنے ساتھ بٹھا کر خاطر مہارت کی ہدایات دیں ۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے اپنے دائیں بائیں سامنے کم و بیش چالیس پچاس چاہنے والوں کے ساتھ خاندان اور خون کے اوپر بات کرکے ایک مشہور قصہ سناتے ہوئے فرمانے لگے کہ سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیاء قطب اور ابدالی بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کرکے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے ۔ سب خاموش رہے ، دربارمیں بیٹھا ایک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا کہ میں زیارت کرا سکتا ہوں۔ سلطان نے شرائط پوچھی تو عرض کرنے لگا 6 ماہ دریا کے کنارے پر چلہ کاٹنا ہو گا لیکن میں غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچہ آپ کو اٹھانا ہوگا ۔ سلطان نے شرط منظور کرلی اس شخص کوچلہ کے لیے بھیج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمہ ہو گیا ۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں لہذا چھ ماہ مزید لگیں گے ۔ مزید چھ ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا؟یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا بادشاہ سلامت کہاں میں گناہ گار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام ، میں نے آپ سے جھوٹ بولا ، میرے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا تھا ، بچے بھوک سے مر رہے تھے ، اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا ۔ سلطان محمود نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے ؟ وزیر نے کہا ، حضور اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے لہذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے ، دربار میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا ،بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتائو اس نے کہا جناب اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے ۔ تاکہ یہ ذلیل ہو کر مرے ، اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے ، دربار میں بیٹھے اس نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ،سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو ؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے اک سال ایک غریب کے بچے پلتے رہے آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا ، اگر میری بات مانیں تو اسے معاف کردیں ، اگر اسے قتل کردیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے ، ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے کے حامل بابا جی کہنے لگا ، ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، بادشاہ سلامت نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے، بابا جی کہنے لگے بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا کہ اس کا گلا کاٹا جائے وہ قوم کا قصائی ہے اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا۔ جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے اس وزیر کا والد شاہی کتے نہلایا کرتا تھا کتوں سے شکار کھیلتا تھا اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے آپ کی غلطی ہے کہ ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیر ہونگے……(جاری ہے)
، وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے اور تیسرا ایاز نے جو کہاتوسلطان محمود سنو ، ایا ز سیدہ زادہ ہے سید کی شان یہ ہے کہ سید اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے مگر بدلہ لینے کا کبھی نہیں سوچتا ، سلطان محمود اپنی کرسی سے اٹھا ، ایاز کو مخاطب ہو کر کہا ، ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سید ہو، ایاز کہنے لگا آج تک کسی کو اس کا علم نہ تھا کہ ایاز سید ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا ، میں بھی آج ایک راز کھول دیتا ہوں ۔ بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں ۔
سائیں جی نے کروٹ بدلی ، اس دوران دو تین ایسے حاضرین پر نظر پڑی جو اپنے سمارٹ فون پر پیغام رسانی میں مصروف تھے، سائیں جی نے بھی اپنا فون نکالا ، پیغامات دیکھے اور واپس جیب میں رکھ لیا ۔ یہ صورت حال میرے لئے نہ صرف نئی تھ بلکہ حیران کن بھی ، حیرت سے پوچھا کہ سائیں لگتا ہے تبدیلی آگئی ہے ۔ آپ نے اس عمر میں کیا شوق پال لیا ۔ سائیں جی مسکرائے اور کہنے لگے ، یہ اتنی بری چیز نہیں ہے میں کافی شاکی تھا اس کے بارے میں لیکن آج ا س نے وہ نقطہ بڑی آسانی سے سمجھا دیا جو میں برسوں سے نہیں سمجھ پایا تھا۔ میری حیرانی اور استفسار پر سائیں جی بولے کہ میں دس بارہ دن سے دوستوں سے واٹس اپ پر رابطے میں ہوں جو دوست ایک دو دن رابطہ نہیں کرتے ان کے نام اور پیغامات نیچے چلے جاتے ہین اتنے نیچے کہ سکرول کرتے کرتے میرا ہاتھ تھک جاتا ہے اور جو رابطہ میں رہتے ہیں ان کے نام لسٹ میں سب سے اوپر رہتے ہیں ۔ عرض کیا یہی دستور ہے، اس کا تو ہمیں پہلے سے علم ہے ۔ سائیں جی مخصوص انداز میں بولے ’’ راجہ جی ، او سوہنیو‘‘ ایہوتے میں سمجھانا چاہ رہیا واں ، ہم سب کا رب ایک ہے جب ہم اس کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اس کو یاد کرتے ہیں تو موجود لسٹ میںہمارا نام اوپر رہتا ہے لیکن جیسے ہی ہم غافل ہوتے ہیں ، یاد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ رابطہ ختم کرتے ہیں تو نہ جانے ہمارا نام لسٹ میں کہاں چلا جاتا ہے۔ اس لیے وقتا فوقتا اسے کسی نہ کسی طرح یاد کرتے رہو ۔ سائیں جی نے لنگر لگانے کا حکم دیا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ جب تک لنگر لگتا ہے ایک اور واقعہ سناتا ہوں ۔ ایک دن مرحوم آخوند کاشی وضوکررہے تھے کہ ایک شخص بہت جلدی میں آیا ، تیزی سے وضو کیا اور نماز شروع کردی مرحوم آخوند کاشی بہت دقت سے آداب اور دعائوں کے ساتھ وضو کرتے تھے۔ قبل اس کے کہ وہ وضو ختم کرتے وہ شخص نماز ظہر پڑھ چکا تھا ۔ مرحوم آخوند اور اس شخص کا سامنا ہوا ۔ آخوند نے پوچھا ، کیا کررہے تھے؟ اس شخص نے کہا کچھ نہیں ۔ مرحوم آخوند، تم کچھ بھی نہیں کر رہے تھے ؟ شخص نہیں کچھ بھی نہیں ( وہ جانتا تھا کہ اگر کہے کہ نماز پڑھ رہا تھا تو مشکل میں پڑ جاتا ) مرحوم آخوند، کیا تم نماز نہیں پڑھ رہے تھے ؟ شخص، نہیں! مرحوم آخوند میں نے خود دیکھا کہ نماز پڑھ رہے تھے۔ شخص، آپ نے غلط دیکھا ہے ۔! مرحوم آخوند پھر تم کیا کررہے تھے ؟ اس شخص نے کہا ۔ بس آیا ہوں خد ا سے کہوں کہ ’’ میں باغی نہیں ہوں ‘‘ اس جملہ نے مرحوم آخوند کو بہت متاثر کیا ۔ بہت عرصے تک جب مرحوم آخوند سے ان کے احوال کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ اپنی ایک خاص حالت میں کہتے ’’ میں باغی نہیں ہوں ‘‘ خدایا ہم خود جانتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں وہ تیری شایان شان نہیں ہیں ۔ ہمارے ’’ روزے، نماز یں کسی قابل نہیں ہیں ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ان عبادات کے ذریعہ سے کہہ سکیں گے۔ خدایا ’ ’ ہم باغی نہیں ہیں ‘‘!!سائیں جی نے لنگر کے بعد بہترین دودھ پتی پلائی ۔ ڈھیر ساری دعائوں کے ساتھ بڑی گرمجوشی سے اسی انداز میں’’ راجہ جی اوسوہنیو ‘