ہفتہ ‘ 4؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 15؍ ستمبر 2018ء
واسا کی لاہور میں واٹر میٹر لگانے کی ہدایت
چلو جی دیرآید درست آید، پینے کے صاف پانی کا بے دریغ استعمال روکنے کے لئے کسی نہ کسی نے یہ فیصلہ تو جلد یا بدیر کرنا ہی تھا۔ دنیا بھر میں لوگ قطرہ قطرہ پانی جمع کرتے ہیں۔ پینے کے پانی کے ضیاع کا تو کہیں بھی تصور ہی نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں 2 مرلے کے گھرسے 20 کنال کے گھر تک روزانہ سیڑھیوں سے لے کر گھر کے دروازے تک صاف پانی سے دھوئے جاتے ہیں۔ گاڑیاں ، موٹرسائیکلیں، لان، پورے درخت کے ساتھ ساتھ گلی اور سڑک کو بھی اس پانی کا چھڑکائو دیا جاتا ہے۔ نہانا دھونا سب کچھ اسی سے ہوتا ہے۔ انسانوں کی توبات چھوڑیں گائے، بھینس اور پالتو کتے اور بلیاں تک اسی پانی سے نہلائے جاتے ہیں۔ اب پانی کے اس ضیاع کو روکنے کا خیال واسا کو آیا ہے تو ٹھیک ہے۔ لاہور میں اطلاع کے مطابق ابتداء میں 6 لاکھ 80 ہزار واٹر میٹر لگیں گے۔ یہ منصوبہ کافی عرصے سے زیر التوا تھا اچھا ہے اب شروع ہوگا۔ اگر ملک بھر میں ایسے میٹر نصب ہوں تو بل کے خوف سے بہت سے لوگ نہانا دھونا چھوڑ دیں گے یا کم کر دیں گے گاڑی بھی کپڑے سے صاف کیا کریں گے۔ یوں پانی کی بہت بچت ہو سکتی ہے۔ یہ ضائع ہونے سے بچ سکتا ہے۔ اس لئے حکومت سالانہ 10 لاکھ میٹر نصب کرنے کا پروگرام طے کر لے تو جلد ہی پورے ملک میں بجلی کے میٹر کی طرح یہ میٹر بھی لگ جائیں گے۔ ویسے بھی پاکستان آبی قلت کا شکارہے اورہمیں پانی بچانے کی بہت ضرورت ہے۔
٭…٭…٭…٭
منی بجٹ تیار کر لیا گیا۔ منگل کو قومی اسمبلی میں پیش ہو گا
بجٹ کے بعد یہ جو منی بدنام ہوئی ٹائپ کے منی بجٹ کے عوام کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ ان سے عوام کی جان جاتی ہے۔ یہ حکمرانوں کا آزمودہ حربہ ہے کہ وہ بجٹ کی شکل میں الفاظ اور اعداد و شمار کا ایسا گورکھ دھندا پیش کرتے ہیں کہ پڑھے لکھے یا جاہل سب اس کو سن سن کر ہی پریشان ہوجاتے ہیں کیونکہ انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کیا پیش ہو رہا ہے۔ اب یہاں حکمران ہاتھ ذرا ہلکا رکھتے ہیں تاکہ عوام کی جان ہی نہ نکل جائے۔ رہی سہی کسر منی بجٹ کی شکل میں عوام کے سروں پر بم برسا کر نکال لی جاتی ہے۔ اب موجودہ حکومت سے عوام کو توقع ہے کہ وہ کند چھری سے انہیں ذبح نہیں کرے گی۔ منی بجٹ کو کسی حد تک عوام دوست رکھے گی۔ مگر حالات اور بیانات سے لگ رہا ہے کہ منی بجٹ خودکش بمبارثابت ہو گا جس کے نتیجے میں مہنگائی کی ایک نئی لہر عوام کو ساحل مراد سے مزید دور کر دے گی۔ برسوں سے مسائل اور مشکلات کے سمندر میں ڈوبنے والے لوگوں کو تو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے مگر یہاں تو مردہ بھی اگر زندہ ہو کر اٹھ بیٹھے توجنازے کے شرکا زبردستی اس کی تدفین پر مصررہتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں منی بجٹ عوام کے لئے خوشیوں کا پیغام لاتا ہے۔ یا ان کی امیدوں پر پانی پھیرتا ہے۔
٭…٭…٭…٭
بھیس بدل کر ٹرینیں چیک کروں گا: شیخ رشید
قصے کہانیوں میں پرانے زمانے کے بادشاہ اپنی رعایا کا حال معلوم کرنے کے لئے بھیس بدل کر نکلتے تھے۔ اس طرح انہیں پتہ چلتا کہ شہر میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ پورے ملک کا وہ دورہ کر نہیں سکتے تھے کہ ذرائع آمدورفت نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ منٹوں میں گھنٹوں کا فاصلہ طے کرتے۔ اس لئے یہ خفیہ دورے صرف اپنے شہر تک ہی محدود رہتے تھے۔ معلوم نہیں اس کے بعد یہ بادشاہ سلامت قسم کے لوگ اپنے عوام کے مسائل کے حل لئے کوئی پانچ سالہ منصوبہ بناتے تھے یا 50 سالہ۔ راوی اس بارے میں خاموش ہیں۔ اب ہمارے وزیر ریلوے بھی چونکہ شیخ ہیں اس لئے ان کے ذہن نارسا میں بھی ایسے شاہوں یا شیخوں والے منصوبے ہی جنم لیتے ہیں۔ شیخ جی اگر چھاپہ بھی ماریں گے تو اسلام آباد تا لاہور ریل کاروں میں یا پنڈی تا کراچی بزنس ٹرین میں یا بہت ہوا تو تیز گام ، خیبر میل میں جو قدرے انسانوں کے سفر کے قابل ہیں۔ اس طرح انہیں ہر طرف سے خیر ہی خیر نظر آئے گی۔ اگرکبھی انہیں ان پرآسائش گاڑیوں سے فرصت ملے تو کراچی اور پشاور کوئٹہ تک چلنے والی گاڑیوں میں بھی چھاپہ مار سفر کریں۔ اندرون سندھ چلنے والے گلے سڑے ڈبوں والی بنا کھڑکیوں اور دروازوں والی ٹرینیوں میں بھی پھنس کر دھکے مار قسم کا سفر کریں تو شاید ریلوے کی قسمت بدل جائے اور شیخ جی کی :
’’اسی کی کی بھیس وٹائے یار تیرے ملنے نوں‘‘
والی زحمت رحمت میں بدل جائے…
٭…٭…٭…٭
سعودی عرب میں بھیک مانگنے والی برقعہ پوش بھکارنوں کی لڑائی ، ایک مرد نکل آیا
سعودی عرب میں سخت قوانین کی وجہ سے جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ مگر جدید دور میں نت نئے ذرائع کی وجہ سے اب سعودی عرب میں بھی جرائم نت نئے انداز میں سامنے آ رہے ہیں۔ برادران اسلام سعودی عرب سے مراد مکہ مدینہ لیتے ہیں۔ جو درست نہیں یہ دونوں مقدس مقامات بھی سعودی عرب میں ہیں۔ مگر سعودی عرب بہت بڑا ملک ہے۔ جس میں ریاض جدہ اور دمام جیسے بڑے بڑے جدید شہر بھی ہیں۔ جہاں ہر طرح کے ہر ملک کے لوگ کام کرنے آتے ہیں۔ سو یہ لوگ اپنی عادت کے مطابق طرح طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں میں بھارتی ، بنگالی، یمنی، افریقی اور پاکستانی سرفہرست ہیں۔ جرائم کو تو چھوڑیں سب سے ادنیٰ کام بھیک مانگنے والوں کا ہے۔ ان میں بھی اکثریت انہی کی ہوتی ہے یہ جدید بھکاری باقاعدہ ویزا لے کر سعودی عرب آتے ہیں اور بھیک مانگ مانگ کر اپنا منافع بخش کاروبار چلاتے ہیں۔ گزشتہ دنوںا یسے ہی برقعہ پوش بھکارنوں میں خدا جانے کاروباری رقابت یا بھیک کے لئے چھینا چھپٹی ہوئی تو بات مار کٹائی تک جا پہنچی۔ اس دوران ایک برقعہ پوش بھکارن کا برقعہ اتر گیا تو برقع کے اندر سے بھکارن کی بجائے بھکاری برآمد ہوا۔ ہمارے ہاں بھی بھکاریوں میں یہ چلن عام ہے۔ عام طور پر ہم جسے لیلیٰ سمجھ کر بھیک دیتے ہیں اس برقعہ کے اندر کوئی مجنوں چھپا ہوتا ہے۔ بھٹو دور میں حکومت کیخلاف کراچی کی برقعہ پوش خواتین کے جلوس میں مرد حضرات کی شمولیت کے فسانے ابھی تک لوگ چسکے لے لے کر سناتے ہیں۔
٭٭٭٭٭