دانش سکولز کا مستقبل خطرے میں
8ستمبر کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ موجودہ پنجاب حکومت نے دانش سکولز پراجیکٹ کو ختم کرنے کیلئے وزیر اعظم کو تجویز ارسال کر دی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکومت شاید مخالفت برائے مخالفت پر تلی ہوئی ہے۔ کبھی وزیر اعظم ہاؤس کے ملازمین کو فالتو کہا جاتا ہے۔ کبھی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کو سفید ہاتھی قرار دیکر ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور اب پنجاب کے دیہی علاقوں کے انتہائی مفلس‘ نادار‘ بے سہارا اور یتیم بچوں کی تعلیم کیلئے قائم کئے گئے سکولز کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جو حکومت ریاست مدینہ کا نظام قائم کرنے کا دعویٰ کرتی تھی‘ اسے ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا چاہئے کہ کیا ریاست مدینہ میں ملازمین سے روزگار چھینا گیا تھا؟ کیا ریاست مدینہ میں طالب علموں سے تعلیمی ادارے چھینے گئے تھے؟ پاکستان کی تاریخ میں صرف دو مرتبہ غریب عوام کی بھلائی کیلئے کام کئے گئے ہیں ایک ذوالفقار علی بھٹو اور دوسرا شہباز شریف کے دور حکومت میں انتہائی مفلس اور نادار بچوں کیلئے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے ان اداروں میں اساتذہ سیاسی اور سماجی رہنماؤں کی سفارش سے بھرتی ہوئے ہیں اس اخبار کو اپنا ریکارڈ درست کر لینا چاہئے۔ دانش سکولز میں اساتذہ کی بھرتی خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ان سکولز کو کنٹرول کرنے کے لئے محکمہ تعلیم کی بجائے الگ سے ایک آزاد اور خود مختار اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ جو سیاسی لوگوں کے اثرو رسوخ سے آزاد ہے اور اس کیلئے سارے کام میرٹ پر ہو رہے ہیں۔
میری وزیر اعظم سے ا پیل ہے کہ صوبائی حکومت کی اس سمری کو منظور نہ کیا جائے۔ ان سکولوں میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس ہزار غریب اور نادار بچے ز یر تعلیم ہیں اور تقریباً 4ہزار کے قریب ملازم ہیں۔ سکول بند کئے گئے تو ان ملازمین کا کیا بنے گا؟ ہمارا ملک تو پہلے ہی بے روزگاری کے مسئلے سے دوچار ہے اور وزیر اعظم نے اپنے دور حکومت میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دینے کی باری کب آئیگی۔ کم از کم جولوگ برسر روزگار ہیں ان سے تو روزگار نہ چھینا جائے۔ موجودہ حکومت ملک میں تبدیلی لانے کی دعویدار ہے تو اس کو اپنے طرز عمل اور طریقہ کار میں بھی تبدیلی لانی چاہئے۔ اور اپنی سوچ میں بھی‘ صرف پچھلی حکومت کی مخالفت میں اداروں کو تباہ کرنے سے گریز کیا جائے اور ملازمین کے معاشی قتل سے احتیاط برتی جائے۔ کسی بھی برسر روزگار شخص کا یوں بے روزگار ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اس دکھ کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اسے برداشت کیا ہو۔
تبدیلی کا ایک اور مفہوم اگر دیکھا جائے تو ہر سکولز ہمارے ملک میں ایک خاموش انقلاب اور ایک خاموش تبدیلی لا رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا سب سے اہم ذریعہ تعلیم ہوتی ہے۔ تعلیم معاشرے کی تہذیب ‘ کلچر‘ معاشرت اور معیشت میں تبدیلی کا ایک انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ ان سکولز سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات جب مستقبل میں مختلف محکموں میں خدمات سر انجام دیں گے۔ تو سب سے بڑی تبدیلی ہو گی کہ ان لوگوں کے بچے‘ جو اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں بھی پڑھانے کی ہمت نہیں رکھتے ان سکولز میں پڑھا کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ یہ سکولز ملک کے بجٹ پر بوجھ ہیں تو یہ سوچ سرے سے ہی غلط ہے۔ تعلیم کو بوجھ سمجھنے والے لوگ لیڈر نہیں ہوتے لیڈر تو وہ ہوتے ہیں جو تعلیم ان تک بھی پہنچا دیتے ہیں جو کبھی خواب میں بھی پڑھنے لکھنے کا نہیں سوچ سکتے۔ اگر حکومت دانش سکولز ختم کرتی ہے تو نہ صرف ان طالب علموں پر ظلم عظیم ہو گا بلکہ ملک اور معاشرے میں ایک دیرپا تبدیلی کے عمل کو روکنے کی بھی ذمہ دار قرار پائے گی۔ اس وقت پنجاب میں اور وہ بھی جنوبی پنجاب میں 14دانش سکولز چل رہے ہیں دو کی عمارت تیار ہے۔ جبکہ منکیرہ اور تونسہ میں چار زیر تعلیم ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور یہ سارے سکول بھی جنوبی پنجاب میں ہیں۔ شہباز شریف پر الزام تھا کہ اس نے جنوبی پنجاب کا بجٹ لاہور میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین پر لگا دیا ہے لیکن اسی وزیر اعلیٰ نے سارے دانش سکولز جنوبی پنجاب میں قائم کئے ۔ ایک سکول بھی وسطیٰ اور بالائی پنجاب میں قائم نہیں کیا۔ موجودہ وزیر اعلیٰ کو تو چاہئے تھا کہ وہ اور دانش سکولز قائم کرتے کہ سب سے زیادہ پسماندگی جنوبی پنجاب میں ہے ا نہوں نے الٹا ان کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
جناب وزیر اعظم! ریاست اپنے شہریوں کیلئے ماں کا درجہ رکھتی ہے ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے اسی طرح ریاست اپنے شہریوں کو پالتی ہے۔ یورپ میں تو جو لوگ ملازمت نہیں بھی کرتے ان کو بھی 60سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد پنشن ملنی شروع ہو جاتی ہے جبکہ یہاں کسی کو ریٹائرمنٹ تک جینے ہی نہیں دیا جا رہا۔
ان سکولز میں انتہائی مفلس بچے زیر تعلیم ہیں جب ان بچوں کو ان سکولز سے نکال دیا جائے گا تو ان کے دل پر کیا بیتے گی۔ اور پاکستان کا قوموں کی برادری میں کسی طرح نام لیا جائے گا۔ کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مزید تعلیمی ادارے قائم کرنے کی بجائے پہلے والے بند کئے جا رہے ہیں۔ آپ سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اس مسئلہ کو ہمدردی سے دیکھیں اور ان سکولز کو ختم کرنے کا منصوبہ ختم کریں۔