اگر حکومت کی گزشتہ اڑھائی برس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ مسلسل ناکامیوں، کہہ مکرنیوں، کوتاہ نظری اور ناقص حکمت عملی سے عبارت ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ انکی تیسری باری ہے۔ اگر پنجاب حکومت کو شامل کرلیا جائے تو آدمی گنتی بھول جاتا ہے۔ حیرانی اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ مستقبل کا مورخ کیا لکھے گا! انکی کارکردگی کا کن زاویوں سے جائزہ لے گا۔ پہلی مرتبہ دو تہائی اکثریت ملی تو ہیوی مینڈیٹ کے بوجھ تلے خود ہی دب گئے۔ امیرالمومنین تو نہ بن سکے مومنین کو ہی ناراض کرلیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بحال تو ہوگئے لیکن اختیارات سکڑ اور سمٹ کر اتنے رہ گئے جتنے آخری دنوں میں بہادر شاہ ظفر کے تھے۔ شاہ عالم دلی تا پالم۔ میاں صاحب بھی اسلام آباد تک محدود ہوگئے۔ وٹو نے عملاً ان کا لاہور میں داخلہ بند کردیا۔ ذرا اس ملک کا جمہوری نظام تو ملاحظہ فرمائیں۔ وہ تمام ممبران صوبائی اسمبلی جنہوں نے میاں منظور وٹو کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا تھا۔ اس کے ڈر سے اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں محصور ہوگئے۔ ان میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ لاہور آکر وٹو کے خلاف عدم اعتماد کرتے۔ بارہ ممبروں کی حمایت والا شخص گرجتا اور برستا رہا، میاں صاحب نے پرویز مسعود کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کرنے کا حکم صادر فرمایا تو اس بیچارے کو رات کے وقت جسٹس محبوب سے ضمانت قبل از گرفتاری کرانا پڑی۔ جس چیمے کو انہوں نے آئی جی پنجاب لگایا اس کے متعلق وٹو کے تعینات کردہ آئی جی، جی اصغر ملک نے وائرلیس پر آرڈر آف دی ڈے نکالا کوئی چیمہ نامی شخص اپنے آپ کو آئی جی پنجاب ظاہر کررہا ہے۔ ہر پولیس آفیسر کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اسکا حکم ماننے سے انکار کردے۔ جمہوریت بھی سوچتی ہوگی کہ کس ملک میں آپھنسی ہے۔ وہ تو بھلا ہو جنرل کاکڑ کا جس نے ان سے استعفیٰ لے کر کشمکش اقتدار سے آزاد کردیا۔
اگر پہلی باری میں غلام اسحاق اور وٹو سے پنجہ آزمائی کی تھی تو دوسری بار جنرل پرویز مشرف سے سینگ پھنسا بیٹھے۔ وہ سری لنکا کیا گئے انہوں نے سوچا کہ ”شب خون “ مارنے کا یہ نادر موقع ہے۔ وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے تھے نتیجتاً انکے اپنے ہی اقتدار کا ”شام کلیان“ ہو گیا۔ پرویز مشرف بنیادی طور پر (HAPPY GO LUCKY TYPE) شخص تھے۔ اسلامی ملکوںنے جب بھٹو کی سزائے موت ختم کرنے کا کہا تھا تو ضیاءالحق نے صاف انکار کردیا تھا۔ پرویز مشرف سعودی درخواست مان گئے۔ انہیں جیل سے نکال کر جدہ بھیج دیا۔ میاں صاحب نے کسی طرح کی ممنویت کا اظہار نہ کیا۔ 2000ءمیں، میں جب انہیں جدہ میں ملا تو جنرل سے سخت ناراض تھے۔ کہنے لگے۔ ”سخت احسان فراموش انسان ہے، میں نے اسے آﺅٹ آف ٹرن ترقی دے کر آرمی چیف بنا دیا“ مجھے کیا علم تھا کہ (FRANKENSTEIN MONSTER) کی طرح میرے اقتدار کو ہی نگل جائےگا۔ عرض کیا۔ آپ نے اس ملک کی مختصر تاریخ پر تو نگاہ ڈالی ہوتی۔ جو کسی کو لاتا ہے و ہی سب سے پہلے اپنے محسن کو فارغ کرتا ہے۔ اب زیادہ دور کیا جانا ہے۔ سکندر مرزا نے اپنے محسن غلام محمد سے بندوق کی نوک پر استعفیٰ لیا، ایوب خان نے اپنے مربی مرزا کو جلا وطن کیا۔ تحریک کے دوران یحییٰ خان نے ایوب سے بے وفائی کی۔ بھٹو نے جس طرح جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم کو چکمہ دیکر گورنر ہاﺅس بلا کر استعفیٰ لیا، وہ تاریخ عبرت کا ایک دلچسپ باب ہے۔ جو بات میں نے مصلحتاً نہ کہی وہ یہ تھی کہ آپ نے محمد خان جونیجو کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اقتدار کی اپنی منطق ہوتی ہے یہ کسی اخلاقی ضابطے کی پروا نہیں کرتا۔ ہمارے اخلاق پسند لوگ میکاولی کو مطعون کو ضرور کرتے ہیں لیکن جو حقائق وہ بوڑھا اطالوی مصنف بیان کر گیا۔ وہ حقیقت پر ہی مبنی تھے۔ تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
MURPHY LAW ہے۔ ANYTHING THAT CAN GO WRONG WILL GO WRONG ہونی ہو کر رہتی ہے۔ انسان اپنے اردگرد لاکھ حفاظتی حصار کھڑے کردے، وقت اور حالات انہیں خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے جاتے ہیں۔
حالات بدقسمتی سے حکمرانوں کو اس سمت لے جارہے ہیں جہاں پر ہیوی مینڈیٹ کا راہوار لڑکھڑایا تھا۔ ایک بار پھر یہ اپنے آپ کو سمندر اور سخت چٹان کے درمیان کھڑا پا رہے ہیں۔ گو بظاہر عمران خان کا دھرنا ناکام ہوگیا تھا لیکن وہ اپنے پیچھے دوررس اثرات مرتب کر گیا ہے۔ تین اہم حلقوں میں دھاندلی کی بنیاد پر ری الیکشن بھی پریشانی کا سبب بن رہا ہے لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ بعد از خرابی بسیار ہم مقتدر قوتوں اور پوری قوم کو ادراک ہوگیا کہ ملک معروضی حالات میں چل نہیں سکتا۔ ہرچہ باداباد کی اس سے بدترین مثال نہیں دی جا سکتی۔ چار سو لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ لاقانونیت، اقرباءپروری، رشوت ستانی، مذہبی منافرت اور مک مکا سکہ رائج الوقت تھا۔ آخر کار ایک مرد حر کو احساس ہوا کہ (NOW OR NEVER) آپریشن ضرب عضب شروع ہوا۔ جنگ دہشت گردوں کی کمین گاہوں تک پھیلا دی گئی۔ جہاں دس برس تک نیٹو کی افواج کامیاب نہ ہو سکیں۔ وہاں پر پاک فوج نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہتھیلی پر سرسوں جما دی، کراچی ملکی معیشت کا (NERVE CENTER) ہے، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلرز اور غنڈوں کے ہاتھوں تنگ آکرتاجر ملک چھوڑ رہے تھے ۔جب رینجرز نے بلاامتیاز آپریشن شروع کیا تو کئی پردہ نشینوں کا بھرم کھل گیا۔ سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگ طشت ازبام ہوگئے، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے لیڈروں کے جب پر جلنے لگے تو انہوں نے کھل کر دھمکیاں دینی شروع کردیں۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینگے، اتحاد ثلاثہ ختم کردینگے، سربستہ راز افشا کر دینگے۔ ان دھمکیوں کا اصل طاقتوں پر تو کیا اثر ہوتا ہے، حکومت عجب مخمصے میں پڑ گئی ہے۔ بھٹو مرحوم نے ادھر ہم ادھر تم کا جو نعرہ لگایا تھا اس پر عمل (ن) لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے کیا ہے۔ پنجاب پر شریف برادران کی عملداری، سندھ زرداری کے حوالے کراچی اور حیدر آباد کا چارج بڑے بھائی کو دے دیا گیا، مرکز باری باری خیبر پی کے میں ہمارے صدا بہار مولانا صاحب کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ حسب توفیق عمران خان کو زچ کرتے رہیں۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق حکمران ”ایشین ہیملٹ بن گئے ہیں۔ (TOBE OR NOT TOBE) مجرموں کی سرکوبی کرنے والوں کو اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ ساری قوم ان کے ساتھ ہے۔ ویسے بھی انہیں جو کرنا ہوتا ہے کر گزرتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی ایم کیو ایم ناراض ہو کر عمران خان کے ساتھ ملتی ہیں تو پھر ق لیگ جماعت اسلامی اور اے این پی کی شمولیت ناگزیر ہو جاتی ہے، ان ممکنہ حالات میں راج سنگھاسن ڈولنے لگے گا۔ جس ذہنی کرب سے اس وقت حکمران گزر رہے ہیں، اس کا اندازہ ایک عام آدمی کو نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ تاریخ انہیں اچھے نام سے یاد رکھے تو پھر نتائج کی پروا کئے بغیر وہ کام ہونے دیں جس میں اس قوم کی بقاءہے۔ ملک ہوگا تو اقتدار بھی ہوگا۔ اگر مغلوں نے اس ملک پر سینکڑوں سال حکومت کی ہے تو مغل مزاج لوگوں کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔