پاکستانی قیادت سے ایرانی چیف آف جنرل سٹاف کی ملاقاتیں
پاکستان اور ایران نہ صرف ہمسایے بلکہ برادر اسلامی ملک بھی ہیں۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے مضبوط تعلقات خطے میں بہت سے مسائل حل کرسکتے ہیں اور کئی مشترکہ دشمنوں کو یہ پیغام بھی دے سکتے ہیں کہ کسی بھی مشکل وقت میں یہ دونوں مل کر اس دشمن کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ اب افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے حوالے سے پاکستان اور ایران یکساں طور پر تشویش کا شکار ہیں کیونکہ دونوں کی افغانستان کے ہمسایے ہیں اور افغانستان میں کسی بھی منفی صورتحال کا اثر دونوں پر ہی پڑے گا۔ اس حوالے سے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت سے بات کرنے کے لیے ایران کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد باقری پاکستان آئے۔ بدھ کے روز انہوں نے وزیراعظم عمران خان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور اہم امور پر تبادلۂ خیال کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے میجر جنرل محمد باقری سے ملاقات کے موقع پر دونوں ملکوں کے برادرانہ تعلقات اور دوشنبہ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے حوالے سے گفتگو کی۔ وزیراعظم نے دونوں ملکوں میں تجارتی ، معاشی اور توانائی کے شعبہ میں تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا۔ عمران خان نے کہا کہ پاک ایران بارڈر امن اور دوستی کا بارڈر ہے۔ بارڈر پر دونوں جانب سے سکیورٹی اقدامات بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے ایران کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر حمایت کو سراہا اور خصوصاً ایرانی سپریم لیڈر کے کشمیر پر موقف پر اظہار تشکر کیا۔ افغانستان کی تازہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ہمسایہ ممالک ہونے کے ناتے پاکستان اور ایران پر افغان امن و استحکام کے لیے خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔وزیراعظم اور ایرانی کمانڈر میں افغانستان میں امن کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز کے دورہ کے موقع پر میجر جنرل محمد باقری نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا سے ملاقات کی۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، ملاقات میں دونوں فوجی سربراہان نے باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں، دفاع اور سلامتی سمیت دو طرفہ تعاون، انسداد دہشت گردی اور موجودہ علاقائی ماحول خصوصی طور پرافغانستان کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان فوجی مصروفیات کی سطح اور دائرۂ کار کو بڑھانے کے اقدامات پر زور دیا اور مزید گہرے تعلقات قائم کرنے کا عہد کیا۔ دونوں جانب سے اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ مشترکہ سرحدیں ’امن اور دوستی کی سرحدیں‘ ہونی چاہئیں۔ ایرانی چیف آف جنرل سٹاف نے پاکستانی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کو سراہا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی قربانیوں کو سراہا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ایرانی چیف آف جنرل سٹاف نے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں ملاقات کی جس میں علاقائی امن کے فروغ اور انسداد دہشت گردی کے لیے مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں باہمی دلچسپی اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات میں علاقائی سکیورٹی اور پاک ایران بارڈر مینجمنٹ پر گفتگو اور دونوں جانب سے دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ایرانی چیف آف جنرل سٹاف نے فوجی رابطوں کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے علاقائی امن کے فروغ، انسداد دہشت گردی کے لیے مل کر کوششیں کرنے پر اتفاق کیا۔ ایرانی وفد کو علاقائی سکیورٹی اور آپریشنل امور پر بریفنگ بھی دی گئی۔
افغانستان میں حالات کے بگاڑ کی وجہ سے اس وقت خطے کے تمام ممالک بے چینی کا شکار ہیں۔ افغانستان کے تمام ہمسایے اس نئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنی اپنی سطح پر بھی اقدامات کررہے ہیں اور اس سلسلے میں مشترکہ پالیسی تشکیل دینے کے لیے ان ممالک کے رہنما ایک دوسرے سے مشاورت اور ملاقاتیں بھی کررہے ہیں۔ اسی حوالے سے ایرانی فوج کے سربراہ کا پاکستان آنا اور یہاں سیاسی اور عسکری قیادت سے ملاقاتیں اور مشاورت کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے سے خوشگوار اور مضبوط تعلقات رکھتے ہیں اور مختلف حوالے سے ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے مسئلے پر ان دونوں کا تعاون ایک دوسرے سے اس لیے بہت ضروری ہے کیونکہ دونوں ہی افغانستان کے ہمسایے ہیں اور افغانستان کے ساتھ نظریاتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس نئی صورتحال میں افغانستان میں امن و امان کے قیام کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ افغانستان میں اگر حالات مزید بگڑے تو ان کے اثرات صرف اس کے ہمسایوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے لیے عالمی برادری کو ہر ممکن مدد فراہم کررہا ہے اسی لیے بہت سے ممالک اور عالمی ادارے افغانستان میں صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے پاکستان پر ہی انحصار کررہے ہیں۔ افغانستان میں اس وقت جو امن دشمن عناصر صورتحال بگاڑنے کی کوشش کررہے ہیں انہوں نے پاکستان میں بھی ایسی کارروائیاں شروع کردی ہیں جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پُر عزم ہے اور کسی بھی قسم کی رکاوٹیں ہمارے اس عزم کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ہر ممکن مدد بھی فراہم کرنی چاہیے تاکہ ماضی کی طرح پاکستان افغانستان کے سنگین حالات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا بوجھ اکیلا ہی نہ ڈھوتا پھرے اور پھر صورتحال مزید بگڑنے پر یہ الزام بھی اسی پر لگے کہ اس نے تخریب کاروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررکھی ہیں جس کی وجہ سے اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔