’اٹھا لو پاندان اپنا‘
میرا ہمیشہ سے یہ تجسّس رہا ہے کہ اپنا اپنا یوم سیاہ منانے والوں کا جمہوریت کے ٹوپل ہونے کے حوالے سے درد سانجھا ہے تو انہیں ہر یوم سیاہ مشترکہ طور پر منا کر آئندہ کے لئے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے کے عزائم رکھنے والوں کو جمہوری قوتوں کے متحد و منظم ہونے کا ٹھوس پیغام دینا چاہئے۔ پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی حکومت اور جمہوریت کا خاتمہ ہوا تو پیپلز پارٹی نے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانا شروع کیا۔ مگر پیپلز پارٹی کے نظریاتی اور سیاسی مخالفین اس دن کو جشنِ فتح کی صورت میں یاد کرتے رہے۔ ضیاء الحق کے یکا و تنہاء اقتدار کے گیارہ سال قومی سیاست میں بھٹو اور انٹی بھٹو فیکٹر کی باہمی کش مکش میں گزرے جس کے دوران بحالی ٔ جمہوریت کی تحریک کے لئے قائم ہونے والے سیاسی اتحاد ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر بھٹو حکومت کی مخالف جماعتوں کے قائدین اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کی نوبت لانے والے بھٹو مخالف سیاسی ، دینی اتحاد پی این اے کے 9 میں سے چھ ’’ستارے‘‘ ، سوائے جماعت اسلامی ، پیر صاحب پگارا شریف کی فنکشنل لیگ اور نورانی میاں کی جمعیت علماء پاکستان کے ، اسی پیپلز پارٹی کے کندھے سے کندھا ملا کر آٹھ سال تک ضیاء الحق کے مارشل لا کو چیلنج کرتے ، قید ، کوڑوں ، عقوبت خانوں کی اذیتوں سے گزرتے رہے۔ ان میں بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کرنے والے ائر مارشل اصغر خاں بھی شامل تھے ، ضیاء الحق کی کابینہ کا حصہ بننے والے پاکستان جمہوری پارٹی کے نوابزادہ نصراللہ خاں بھی ضیاء الحق کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک کا حصہ بنے اور اپنے خاندان کے ارکان کے ساتھ ننگے پائوں ضیاء الحق کا استقبال کرنے والے اے این پی کے لیڈر ولی خاں بھی ضیاء الحق کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک میں پیش پیش رہے جن کی گرفتاری اور نظربندی کے دوران بیگم نسیم ولی خاں ایم آر ڈی کی تحریک کو لیڈ کرتی رہیں۔ میاں نواز شریف اور ان سے منسوب مسلم لیگ کا تو ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت سیاست میں کہیں وجود ہی نہیں تھا۔ نواز شریف تحریک استقلال کے صوبائی نائب صدر ہونے کے ناطے پی این اے کے گمنام کارکن ضرور رہے مگر 1981ء میں ایم آر ڈی کے تشکیل پاتے ہی وہ تحریک استقلال کی کشتی سے چھلانگ لگا کر ضیاء الحق کا دم بھرنے لگے۔
ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر تو ہر پانچ جولائی کو مشترکہ طور پر ہی یوم سیاہ منایا جاتا رہا اور وکلاء تنظیمیں بھی آئین کی پاسداری و بحالی کے ناطے سے ایم آر ڈی کے ساتھ مل کر پانچ جولائی کو یوم سیاہ کے طور پر مناتی رہیں جبکہ یوم سیاہ منانے والوں میں ماسوائے نواز شریف کے ، انٹی بھٹو فیکٹر بھی اپنا حصہ ڈالتا رہا۔ میرا اس وقت بھی یہی تجسّس تھاکہ جمہوریت کی پاسداری و عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کے ساتھ کھڑا ہونے کی داعی تمام سیاسی جماعتیں ، چاہے ان کے مابین سیاسی اختلافات بھی موجود ہوں ، ہر سال پانچ جولائی کو مشترکہ طور پر یوم سیاہ کے طور پر منائیں تو آئندہ کے لئے کوئی ماورائے آئین اقدام اٹھاتے ہوئے کئی بار سوچنا پڑے گا مگر جمہوری قوتوں میں شامل جن سیاسی قائدین کی مارشل لاء کی چھتری کے نیچے نشوونما ہوئی تھی وہ تو پانچ جولائی 1977ء کے اقدام کو اپنے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے تھے چنانچہ وہ من وسلویٰ کے ساتھ ہی بندھے رہے۔ نواز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے ناطے 1988ء کے انتخابات کے وقت پیپلز پارٹی مخالف اتحاد آئی جے آئی تشکیل دینے اور اس کی قیادت کرنے کا موقع مل گیا۔ انہوں نے پنجاب کا معرکہ تو مار لیا مگر اسٹیبلشمنٹ اور انٹی بھٹو فیکٹر کے کیمپ میں شامل ساری قوتیں باہم مل کر بھی وفاق میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کا راستہ نہ روک سکیں۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اس وقت تنہاء پرواز کے بجائے ایم آر ڈی میں شامل اپنی حلیف جماعتوں کو ساتھ ملا کر انتخابی میدان میں اترتی تو ملک کا نیا سیاسی نقشہ کچھ اور ہوتا اور آئین و جمہوریت کے خلاف ماورائے آئین اقدام پر یوم سیاہ منانے کا مشترکہ جذبہ بھی مستحکم ہو جاتا مگر پیپلز پارٹی کی تنہاء پرواز نے سیاسی محاذ آرائی کی فضا کو ذاتی دشمنوں میں بدل دیا۔ اس فضا میں میاں نواز شریف کے لئے وفاقی اقتدار کا بھی راستہ کھلا تو ان کے دل میں بھی مطلق العنانیت کا سودا سما گیا اور ان کے ہاتھوں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک والوں کے پرزے اڑنے لگے۔ اگر وہ اپوزیشن بنچوں پر موجود جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلتے تو ان پر اپنی ہی ترمیم شدہ آئین کی دفعہ 58 ٹو (بی) کا صدر غلام اسحاق خاں کے ہاتھوں کلہاڑا چلنے کی شائد نوبت نہ آتی ۔وہ (ڈاکٹر نسیم حسن شاہ والی سپریم کورٹ میں بحالی جمہوریت والا کیس جیت گئے مگر اتنے ’’بہادر‘‘ نکلے کہ وزارت عظمیٰ پر بحالی کے ایک ماہ بعد ہی اپنے ہی ہاتھوں کلہاڑا چلا کر جمہوری حکومت اور اسمبلی قربان کر دی چنانچہ جمہوریت کی عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی میں بھی منتخب حکومت اور اسمبلی کا گلا گھونٹنے کی حوصلہ مندی پختہ ہو گئی اور 1996ء کی اسمبلی اور اس کے ماتحت قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی اپنے ہی منتخب صدر فاروق لغاری ہاتھوں ٹوپل ہو کر گھر جانا پڑا۔
ارے صاحب ! آپ نے یہ روایت پختہ ہی کر دی تھی تو پھر -12 اکتوبر 1999ء کو چیف آف آرمی سٹاف کی برطرفی اور نئے آرمی چیف کے تقرر کے معاملہ میں اپنے آئینی اختیار کو جتاتے ہوئے آپ جنرل مشرف کی ٹیم کے ماورائے آئین اقدام کی زد میں آئے تو آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے۔ آپ پانچ جولائی کا یوم سیاہ مشترکہ طور پر منانے کی روایت میں اپنا حصہ ڈال دیتے تو کیا آپ کے لئے -12 اکتوبر کے یوم سیاہ کی نوبت آتی۔ آپ بھی تو پھر بحالی جمہوریت کے لئے اپنے مخالف اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر آنے پر مجبور ہوئے۔ آپ اس پلیٹ فارم پر ایک دوسرے کے بہن بھائی بنے اور آئندہ کسی کو ماورائے آئین اقدام کے لئے اپنا کندھا فراہم نہ کرنے کے عہد کے ساتھ میثاقِ جمہوریت کیا تو کیا اس کے بعد بھی اس عہد کی پاسداری کی گئی؟ یہ تو ماورائے آئین اقدام والوں کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے اس اقدام کے لئے آپ کے فراہم کردہ بھرپور مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور آئین و جمہوریت کی پاسداری کا خود جھنڈا اٹھا لیا ہے۔
اور اب تو -12اکتوبر 1999ء کے ماورائے آئین اقدام کے ڈسے ہوئوں نے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی رسم بھی خود ہی ختم کر دی ہے ، ’’نہ رہے بانس ، نہ بجے بنسری‘‘ ۔ شاید ووٹ کو عزت دلانے کا یہی درمیانی راستہ مناسب نظر آیا ہو گا اس لئے تین روز قبل کا -12 اکتوبر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھرپور یوم سیاہ تو کجا ، کسی رسم مذمتی بیان کی نوبت بھی نہیں لا پایا۔ خیر، میاں نواز شریف تو اپنے عہدِ اقتدار میں بھی -12 اکتوبر والے یوم سیاہ پر ’’مئی پائو‘‘ پالیسی پر عمل کر چکے ہیں جب انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں آئین سے غداری والا ریفرنس دائر کراتے ہوئے ان کے -12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کا تذکرہ تک نہیں ہونے دیا تھا۔ ان کی اس سوچ کے بعد تو ان کی زبان پر ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ جچتا ہی نہیں۔ اب ان کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں کہ آئی ایس آئی چیف کے تقرر کے ایشو پر آئین کی پاسداری اور وزیراعظم کے آئینی اختیار کی دال نہیں گلے گی تو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ مزیدتقویت حاصل کر جائے گا۔
حضور! آپ نے تو خود -12 اکتوبر والے یوم سیاہ سے صرفِ نظر کر کے ’’اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی ‘‘ کا نقشہ کھینچ دیا ہے اور اس کے برعکس آئین و جمہوریت کے تحفظ کا علم ماورائے آئین اقدام والوں نے تھام لیا ہے تو وہ بھلا اس علم کو اب سرنگوں کیوں ہونے دیں گے اور جن سے آپ نے نئی نئی توقع باندھی ہے وہ تو اپنے حکومتی معاون خصوصی عامر ڈوگر کے ایک ہلکے سے بیان کا بوجھ اٹھانے کے بھی متحمل نہیں ہو پا رہے تو جناب اب ’’اٹھائیے پاندان اپنا‘‘۔ جن تِلوں میں تیل ہوتا تھا وہ ہماری دھرتی نے اگانا اب ترک کر دئیے ہیں۔